آبادی اوروسائل میں توازن کیلئے انقلابی اقدامات کی ضرورت!

 آبادی اوروسائل میں توازن کیلئے انقلابی اقدامات کی ضرورت!

اس وقت دنیا کی آبادی 7ارب 87 کروڑ نفوس سے زائد ہے، جو 2050ء  میں 9ارب 70کروڑ اور 2100ء میں 10 ارب 9 کروڑ نفوس ہونے کی توقع ہے۔امکان ہے کہ 2050ء تک دنیا کی تقریباً 66 فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہوگی۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے 22 کروڑ سے زائد افراد کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پرہے۔جبکہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح ایک اعشاریہ نو فی صدہو چکی ہے اور شہری آبادی میں ہر سال تقریباً تین فی صداضافہ ہونے کے ساتھ جنوبی ایشیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستانی شہروں میں تیزی سے آرہے ہیں۔ 2030تک پاکستان کے متوقع 250 ملین شہریوں کے نصف سے زیادہ شہریوں کے شہروں میں رہنے کی توقع ہے۔ ان رجحانات کے دور رس مضمرات ہیں، یہ معاشی ترقی، روزگار، آمدنی کی تقسیم، غربت اور معاشرتی تحفظات کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ صحت کی سہولیات، تعلیم، رہائش، صفائی ستھرائی، پانی، خوراک اور توانائی تک عالمی رسائی کو یقینی بنانے کی کوششوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ملک میں آبادی اور وسائل میں توازن نہ رکھنے کی وجہ سے بیروزگاری عام ہے، پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات دستیاب نہیں، پاکستان میں 2040 تک مزید ایک کروڑ 90 لاکھ گھروں اور مزید 11 کروڑ 70 لاکھ نوکریوں کی ضرورت ہو گی، جبکہ مزید 85 ہزار پرائمری اسکولوں کی ضرورت ہو گی۔ ملک کی ایک تہائی کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جبکہ نصف کے قریب آبادی غذائی قلت کا شکار ہے جبکہ ایک بڑے حصے کو پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، آلودگی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
ملک میں جہاں ہر ایک منٹ میں دو افراد انتقال کر جاتے ہیں وہیں اسی ایک منٹ میں سات بچے پیدا ہوتے ہیں اور یوں ہر منٹ میں ملک کی آبادی میں پانچ افراد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہر سال پاکستان کی آبادی میں 29 لاکھ افراد کا اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان کی آبادی میں چھ کروڑ افراد ان پڑھ ہیں اورچھتیس لاکھ سے زائد بالغ افراد بے روزگار ہیں۔بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے صحت کی سہولتیں بھی محدود ہوتی جارہی ہیں۔ملک میں ہر 400افرادکے لیے ایک ڈاکٹر  دستیاب ہے، ہر 3261افرادکے لیے ایک نرس اور ہر 1531 افرادکیلئے اسپتال کا ایک بستر ہے۔ پانچ کروڑ70لاکھ لوگ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں، پانچ کروڑ 60 لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اور ساڑھے سات کروڑ سے زائد لوگ صحت و صفائی کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ بھوک کی صورتحال کے لحاظ سے دنیا کے 117 ملکوں میں پاکستان کا نمبر94ہے یعنی 93ملکوں میں صورت حال پاکستان سے بہتر ہے۔ اس درجہ بندی میں پاکستان کی صورت حال گزشتہ برسوں میں بہتر ہوئی ہے۔انسانی وسائل کی ترقی کی درجہ بندی میں 189 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 154 ہے، جبکہ انصاف اور ایمانداری کی درجہ بندی میں  140نمبر پر بہتر ہیں۔ عالمی مسابقتی رپورٹ میں 141ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 110ہے یعنی 109ملک پاکستان سے بہتر ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا اس درجہ بندی میں پاکستان سے آگے ہیں۔
پاکستانی معیشت بڑھتی آبادی اورموسمی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان کو 1999ء سے 2018 تک سے173قدرتی آفات آئی ہیں۔ جس سے ملکی معیشت کو 3.8 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ گلوبل کلائمٹ انڈیکس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو عالمی تنظیموں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات میں سے سیلاب سب سے بڑا خطرہ ہے، 2010میں آنے والاسیلاب جسے پاکستان سپر فلڈ 2010 کے نام سے جانا جاتا ہے، میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے ساتھ پاکستانی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون کی بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریباً ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے۔
افراد کی ضروریات کو مستقل طور پر حل کرنے کیلئے پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وطن عزیز میں کتنے لوگ ہیں، وہ کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں، کتنے بوڑھے، بچے، عورتیں اور جوان ہیں اور انکے بعد کتنے لوگ آئیں گے۔ یہ قانونِ قدرت ہے، ہر زندہ شے نمو پاتی ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے بے چین ومضطرب رہتی ہے، اس لیے آبادی کے مسائل بھی اسی رفتار سے بڑھتے ہیں۔بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے وسائل کی وجہ سے سامنے آنے والی مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے کیلیے لوگوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام میں یہ شعور پیدا کرناہے کہ دستیاب وسائل کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور اتنے کم وسائل میں ملکی آبادی اگر اسی تیز رفتاری سے بڑھتی رہی تو آنے والی نسلوں کی زندگی مسائل سے دوچار ہوسکتی ہے۔ اگر بنیادی سہولتیں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور نکاسی آب کی موجودہ سہولیات 22 کروڑ آبادی کیلئے ناکافی ہیں توآبادی دگنی ہونے پر کیا ہوگا؟ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ 65 فیصدنوجوانوں پر مشتمل ہے، ان نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں اور تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا جائے تو ملک کی ترقی میں انکا کردار بہت اہم اور فائدہ مند ہوسکتاہے۔اسکے علاوہ ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بہتر استعمال سے معیارِ زندگی بلند ہونے کی امیدیں پیدا ہوں گی اور پاکستان کے ہر طبقے کو بنیادی سہولتوں جیسے پینے کاصاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش، ذرائع آمدورفت اور نکاسی آب وغیرہ کی دستیابی ممکن ہوگی۔ 2050ء تک پاکستان کی آبادی 35کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے اور اتنی بڑی آبادی کیلئے بنیادی سہولتوں، خاص طورپر صحت عامہ کی سہولیات اور ان تک رسائی کیلئے موجودہ اورمستقبل میں آنے والی حکومتوں کو لازمی سوچنا ہوگا۔ اس کیلئے ابھی سے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کرہ ارض کے حال اور مستقبل پر نگاہ رکھنے والے افرادانسانوں کو دیگر سیاروں پر آباد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، ہمیں اپنے ملک سمیت دنیا کو رہنے کے قابل بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ 

مصنف کے بارے میں