پراپیگنڈا مہم اور زمینی حقائق

پراپیگنڈا مہم اور زمینی حقائق

پراپیگنڈا ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے کردار سازی اور کردار کشی کرنا ایک معمولی کام ہے کردار تو فرد سے متعلقہ ہے، پراپیگنڈا تو عام لوگوں پر نظریے تک مسلط کر دیتا ہے۔ ہٹلر نے کہا تھا ’’پراپیگنڈا عام لوگوں پر ایک خیال کی حیثیت سے اثر انداز ہوتا ہے‘‘۔ اور پھر خیال کی فتح کے لیے انہیں تیار کرتا ہے، ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے نظریے اور محاورے کے تحت انگریز نے پراپیگنڈا اور ایجنٹوںکا بھرپور استعمال کیا کہ لوگوں کے درمیان موجود معمولی اختلافات کو ابھارا اور زندگی موت کا مسئلہ بنا دیا جائے۔ عوام میں یہ تقسیم اس لیے کہ ان کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو اور وہ کہیں استحصالی حکمرانوں کے خلاف متحد نہ ہو جائیں۔ پراپیگنڈا کے لیے دلکش دلفریب لالچ بھی دیئے جاتے ہیں۔ دولت، عہدے، ناموری، معاشرت میں رسائی یہ وہ رغبتیں ہیں جن میں عام نام نہاد رائے سازی کا دعویدار مبتلا رہتا ہے اس کو کالم نگار کا نام دے لیں، نئی اصطلاح میں موٹیویٹرز کا نام دیں، مذہبی، سیاسی، صحافی لبادے میں یہ لوگ اپنی اپنی منزل جو ضمیر کی تدفین سے حاصل ہوا کرتی ہے، کی طرف گامزن ہے۔ جب سے سوشل میڈیا کے منفی پہلووں سے بھرپور فائدے اٹھاتے ہیں، ان کا کام آسان ترین ہو گیا۔ مشرقی پاکستان 1970 سمندری طوفان تین لاکھ سے زائد انسانوں کی جانیں لے گیا۔ اس میں مال مویشی اور بستیاں ماضی میں کھو گئیں جس کے نتیجے میں خانہ جنگی نے جنم لیا مگر وارداتیوں نے پراپیگنڈا کے ہتھیار سے کھل کر کھیلا، تب تو ذرائع ابلاغ بھی اتنے نہ تھے۔ اشیائے خورونوش کی جعلی قیمتیں آویزاں کر دی گئیں کہ مغربی پاکستان میں گندم، چاول، چینی وغیرہ کے یہ ریٹ ہیں اور مشرقی پاکستان میں یہ ریٹ ہیں۔ 20/21 سال زیادتیاں اور ان کی پروا نہ کرنا ایک الگ داستان تھی مگر لاشوں کے انبار اور بھوک کے راج نے فیک نیوز، جھوٹی خبروں، پراپیگنڈا جس کو حقیقی اصطلاح میں افواہ کہتے ہیں، افواہ سازی کہتے ہیں، اس نے وہ حشر کیا کہ قیامت آ سکتی ہے مگر وہ دن نہیں لوٹ سکتے۔ ابھی میں اس طرف نہیں جاؤں گا جو دیگر اسباب تھے صرف پراپیگنڈا کی حد تک بات ہو رہی ہے۔ اب تو ذرائع ابلاغ کی قیامت خیزیاں سنبھالے نہیں سنبھلتیں۔ یہاں پر اگر کوئی قانونی قدغن ہے تو بیرون ملک فیک اکاؤنٹ بنا کر کوئی بھی پراپیگنڈا کیا جا سکتا ہے۔ اس پر عوامی جذبات سے کھلواڑ کرنے والے سیاست دان بظاہر عوامی سیاست کرنے والے بدنصیبی کہ نظریے کے بغیر ہم نے عصر حاضر میں ایسے سیاستدان کو انقلابی سمجھ لیا۔ 18 سے 25 سال کی عمر کے لوگ، عورتیں، بے روزگار، باپ کے پیسے پر تکیہ کرنے والے، کتاب کو ہاتھ تک تو کیا اخبار تک نہ دیکھنے والے آج صرف ہاتھ میں پکڑے موبائل پر سیلفی بنائی، سوشل میڈیا پر اول فول پر ایمان لائے کوئی تحقیق نہ موازنہ کیا۔ حکمران طبقے ملک و قوم کے زمینی حقائق سے با خبر ہوتے ہوئے لوگوں کو بے خبر رکھ رہے ہیں۔ تحریک اسلام کے حافظ، تحریک پاکستان کی تاریخ کا رخ موڑنے کے کاریگر دانشور، سانحہ مشرقی پاکستان کے متعلق سچ جاننے کے باوجود جانبداری سے تاریخ مسخ کرنے والے، حضرت آدم سے لے کر آج تک کے حالات کا تجزیہ کرنے والے خائن ’’دانشور‘‘ مجھے حیرت ہے کہ دنیا کی تاریخ، زمین کی تہوں، فلکیات کے راز تو بتاتے ہیں سب کا سب کچھ بتاتے ہیں مگر 25 جولائی 2018 کے انتخابات کا پس منظر اور وطن عزیز کی سیاست، ریاست، معاشرت، پارلیمنٹ کو منفی طور پر تہہ و بالا کر دینے والے عمران نیازی اینڈ کمپنی کے پونے چار سال کا تجزیہ نہیں کرتے۔ رویے اور گفتار یوں ہے جیسے یہ پونے چار سال پاکستان میں آئے ہی نہ تھے اگر آئے تھے تو موجودہ حکومت کے کھاتے میں ڈال دیئے گئے۔ ضمنی انتخابات جن کے نتائج پر ابھی چہ میگوئیاں ہیں۔ 15 سیٹوں کو بنیاد بنا کر پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے جو 2011 کے بعد 2018 تک ہوا اور وہ لوگ کر رہے ہیں جو ابھی تک 90 کی دہائی کی سیاست پر بات کرتے ہیں۔ وہ عمران نیازی حکومت کی تباہ کاریوں کا تجزیہ کیوں نہیں کرتے۔ یہ لوگ قوم کے شعوری استحصال کے مجرم ہیں۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر آنے والے وقت کا یوں بتاتے ہیں جیسے یہ کاتب تقدیر ہوں(نعوذ بااللہ)۔ مجھے یاد ہے جب نیازی صاحب نے اقتدار سنبھالا تو چونکہ اداکاری کے ماہر ہیں ،ٹریک سوٹ میں ہزار دانوں کی تسبیح پکڑ کر وزیراعظم سیکرٹریٹ جاتے ہوئے دکھائے گئے۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ کی 30 کاریں اور دو بھینسیں تک گنوا دیں اور اونے پونے بیچ ڈالیں بعد میں سعودی شہزادے کی آمد پر سیکڑوں گاڑیاں خریدیں، تحفہ میں ملنے والی گھڑیاں لاکٹ بیچ ڈالے۔ گورنر ہاؤس 
کی دیوار پر ہتھوڑا مار دیا۔ 22 سال لوگوں کو چور ڈاکو کہنے والا الہ دین کا چراغ لیے عوامی جذبات سے کھیلتا رہا مگر اس کا داؤ نہ لگا۔ محترمہ کی شہادت بھی سکرپٹ کا حصہ تھا اس کے بعد اس کو محدب عدسے سے بڑا دکھا کر قوم کو دھوکہ دیا گیا اور دھوکہ اسٹیبلشمنٹ کے پراپیگنڈے اور عملی کوششوں کی بدولت ہوا۔ کیا موت آتی ہے 2018 کے انتخابات کا پس منظر بتاتے ہوئے پونے چار سال اس کی تباہ کاریاں، آئی ایم ایف سے معاہدے، عدالتوں کی ستم ظریفیاں اور ایجنسیوں کے بھوت کے تذکرے کرنے سے۔ سچ نہیں بول سکتے، لکھ نہیں سکتے تو پھر مر کیوں نہیں جاتے؟ لوگوں کے شعور کا استحصال تو نہ کرو مگر کیا کریں۔ ٭واعظ نصیحت کر رہا تھا اور بھیڑیے کا دھیان بھیڑوں کی طرف تھا۔ ٭گڈریے کو غم تھا ان بھیڑوں کا جو بھیڑیا کھا گیا اور بھیڑیے کو پچھتاوا ان بھیڑوں کا جو بچ گئیں۔
یہی حالت اس وقت عمران نیازی اور اس کے اتحادیوں کی ہے۔ میں سوچتا ہوں یہ سیاسی لوگ بھی کیا لوگ ہیں پیپلز پارٹی کے ورکرز سے اس سے بڑا انتقام کیا ہو سکتا تھا کہ اس کو منظور وٹو، بابر اعوان کا در دکھا دیا۔ پی ٹی آئی کے ’’عمران دے جلسے وچ نچنے نوں جی کردا‘‘۔ ورکرز سے کیا انتقام ہو گا کہ ایک تو منشور پر زیرو فیصد عمل نہ کیا دوسرے وقت آیا تو شہباز گل، پرویز الٰہی، بابر اعوان، شیخ رشید، فرح گوگی کے در دکھا دیئے۔ حکمران طبقے نہ جانے کیوں اپنی قوم کو بھارتی فلم گجنی کا کردار سمجھتے ہیں جس میں عامر خان ہر 10 منٹ بعد ماضی بھول جاتا ہے۔ یہ کرائے کے دانشور کیا سمجھتے ہیں کہ قوم عمران نیازی کے 2011 سے پہلے پس منظر، 2018 کے انتخابات کی واردات اور اس کے بعد اس کے اقتدار میں آنے اور معاشرت، معیشت، خارجہ پالیسی اور اخلاقیات کا بیڑا غرق کرنے کو بھول جائیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو قدرت بھی اس قوم کو بھول جائے گی۔ ابھی کل کی بات ہے سہیل احمد عزیزی کے شو میں عمران نیازی نے خود بتایا کہ جب یہ ٹیم میں آئے تو ٹیم کے منیجر نے ان کو دیکھ کر کہا ’’ایہہ توتی ہوئی مولی کتھوں لے آندی جے‘‘ یہ دھوئی ہوئی مولی کہاں سے لے کر آئے ہو۔ میڈیا اور ایجنسیوں کا بنایا ہوا لیڈر قوم کو منتشر اور اداروں کو انارکی کے سپرد کر گیا۔ یہ آج اس کو دوبارہ مسلط کرنے کے ایجنڈے پر پراپیگنڈا کے ذریعے مسلمہ اور مقبول لیڈر ثابت کر رہے ہیں یہ نہیں دراصل ان کے اندر سے ان کا یار بول رہا ہے۔ پروپیگنڈا مہم چلانے والوں کو زمینی حقائق کی بات کرنا ہو گی۔ 2018 میں جب اس نے حکومت لی اور ن لیگ والے حکومت نہیں لے رہے تھے ملک بچانے کے نام پر ان کو حکومت دی گئی تب کے حالات کا موازنہ کریں موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد آنے والی مہنگائی، ڈالر اور پٹرول کی اڑان تو نیازی دور کے آفٹر شاکس ہیں، ن لیگ ناکام ہوئی جو اپنی کردار کشی کے جواب میں عمران اور اتحادی دور کے پونے چار سال کی وارداتیں عوام کو بتانے سے قاصر رہی۔ سیاست کار، حکمران طبقے تو اپنا کاروبار کرتے ہیں یہ جو تجزیہ کار ہیں ان کو اس قوم پر ترس کھانا چاہئے، حقائق سے آگاہی دینی چاہئے، پراپیگنڈا کے بجائے زمینی حقائق اس کا پس منظر اور ذمہ داران کی نشان دہی کرنا ہو گی۔ اگر بددیانتی کا یہ عالم رہا جو چل رہا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب آئین اور قانون نہیں شخصیت اور جماعت نہیں قدرت کا قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ قدرت اپنا نظام چلانے میں بے باک ہے۔ یہ پراپیگنڈا کہ عمران مقبول ترین ہے کے بجائے حقائق بتائیں کہ بربادی کا ذمہ دار عمران نیازی، اس کے سہولت کار اور اتحادی ہیں۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ اور فارن فنڈنگ کیس ہی کافی ہے۔ ضیا سے لے کر اب تک کون سی انٹرنیشنل مسلم دشمن لابی اس کے ساتھ ہے؟