صاف چلی شفاف چلی

صاف چلی شفاف چلی

صاف چلی شفاف چلی کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی آڈٹ رپورٹ نے شفافیت کے دعوے ہوا میں اڑا دیے۔ کرونا وائرس کے لیے مختص فنڈ میں جو بے ضابطگیاں ہوئیں ہیں وہ سامنے آ گئی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ حکومت اس رپورٹ کو چھپا رہی تھی مگر آئی ایم ایف کے دباوکی وجہ سے رپورٹ جاری کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے دباو پر رپورٹ تو جاری ہو گئی ہے مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ ذمہ داران کے خلاف کس قسم کی کارروائی کی تیاری ہو رہی ہے، کسی کو سزا بھی ہوئی ہے یا پتھر ہضم لکڑ ہضم والا معاملہ ہو جائے گا۔ ٹی وی چینلز کی سکرین پر بھونڈے انداز میں اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر یہ کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ یہ سب کس کے ایما پر اور کس کو خوش کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔ ایک طرف حکومت لوگوں کو کرونا سے بچاو کے لیے فنڈز مختص کر رہی تھی تو دوسری طرف اس حکومت کی چھتر چھایا تلے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن میں بڑے پیمانے پر گھپلے کے گئے۔ اس کارپوریشن میں سب سے زیادہ بد انتظامی سامنے آئی اور اس کے کرتا دھرتا افراد نے اشیائے ضروریہ کی خریداری میں نہ صرف تمام قواعد کو بالائے طاق رکھ دیا تو دوسری طرف انتہائی گھٹیا معیار کی اشیاءکی خریداری بھی کر لی۔ کسی نے بھی کوالٹی کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اب تو یہ کہا جاتا ہے کہ کمپنیاں سب سے گھٹیا سامان یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی بیچتی ہیں۔

صرف یوٹیلیٹی کارپوریشن پر اعتراضات نہیں اٹھائے گئے بلکہ نیشنل ڈیزاسٹر پروگرام اور احساس پروگرام میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی نشاندھی آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں کی ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کرپشن کے خاتمے کا نعرہ دن رات بلند کرتے ہیں مگر ان کے اپنے دور میں کرپشن کے حوالے سے حالات تسلی بخش نہیں ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ کرونا وائرس کی وبا آئی تو حکومت نے غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے بجٹ کا ایک بڑا حصہ مختص کیا۔ دعویٰ یہی تھا کہ اس رقم سے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو کرونا کی وجہ سے معاشی نا ہمواری سے بچایا جائے گا۔ رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ اتنی بڑی رقم کو صحیح انداز میں خرچ نہیں کیا گیا۔ اگر اس رپورٹ میں پیش کیے جانے والے اعتراضات کا ثبوتوں کے ساتھ جواب نہیں دیا جاتا تو یہ رپورٹ اس حکومت کے لیے پھانسی کا پھندا بن سکتی ہے کیونکہ اس میں ان فنڈز کو بے دریغ طریقے سے استعمال کرنے کا الزام موجود ہے جو غریب طبقے کے لیے رکھا گیا تھا۔ حکومت کا دامن صاف ہے تو اس رپورٹ میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کی حقیقت کو عوام کے سامنے رکھے اور وہ تمام افراد جنہوں نے بے ضابطگیوں میں اپنا حصہ وصول کیا ہے ان کے خلاف بغیر کسی تاخیر کے کارروائی کا آغاز کرے۔ شفافیت صرف بلند بانگ نعروں سے نہیں آئے گی بلکہ اس کے لیے عملی قدم بھی اٹھانا ضروری ہے۔

اس رپورٹ نے حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں کہ حکومت اس قدر کمزور ہے کہ اسے علم ہی نہیں کہ اس کے ماتحت ادارے کس طرح کام کر رہے ہیں اور ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کرنے والا نظام موجود نہیں ہے۔ یہ بد انتظامی سے زیادہ نا اہلی کا معاملہ بن جائے گا۔ وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں جو اعتراضات اٹھائے ہیں ان کے ہر اعتراض کا جواب موثر ثبوت کے ساتھ عوام کے سامنے رکھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ عوام کو اس بات سے بھی آگاہ کرے کہ اس رپورٹ کو لوگوں سے کیوں چھپایا جا رہا تھا۔ اس بات کا جواب بھی سامنے آنا چاہیے کہ حکومت نے اس رپورٹ کو آئی ایم ایف کے دباو پر جاری کیا ہے۔

بہت سے لوگ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ فنڈز میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر این سی او سی کیوں خاموش رہا اور اس نے اپنے اجلاسوں میں اس پر کیوں سیر حاصل بحث نہیں کی۔این سی او سی کو اس معاملے میں اس لیے مداخلت کرنا چاہیے تھی کہ کووڈ سے متعلقہ تمام معاملات اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ این سی او سی نے کورونا کو محدود کرنے میں انتہائی شاندار کردار کیا ہے اور پوری دنیا اس کی معترف بھی ہے لیکن کیا وجہ تھی کہ فنڈز کی فراہمی کے معاملہ سے وہ لا تعلق رہی۔ جاری ہونے والی رپورٹ کی وجہ سے این سی او سی پر اعتراضات اٹھیں گے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے حوالے سے ہونے والی فیصلوں کی براہ راست ذمہ دار این سی او سی ہے۔حکومت رپورٹ کا پیرا وائز جواب نہیں دے گی تو این سی او سی کی ساکھ داو پر لگ جائے گی۔

یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن میں ضابطے سے ہٹ کر ناقص اور گھٹیا اشیا کی خریداری ہو یا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں استعمال ہونے والے فنڈز اور سب سے بڑھ کر احساس پروگرام جس کے ذریعے پیسے کی تقسیم کی گئی سارے کا سارا نظام شکوک و شبہات کی زد میں ہے ان حالات میں عمران خان کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نہ صرف اس رپورٹ میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کو دور کریں بلکہ جو بھی اس میں ملوث تھا اسے قانون کی گرفت میں لانے کا بندوبست کریں۔