سرخیاں ان کی…؟

Dr Fareed Ahmad, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

٭… حکومت کو مبارکباد…؟
٭… پی ٹی آئی حکومت نے جس کمالِ فن سے سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے ترمیمی بل کو نہ صرف ’’Manage‘‘ کیا ہے بلکہ منظور بھی کرا لیا ہے ہماری ایماندار اپوزیشن سینٹ میں اکثریت کے باوجود محض اپنے سہولت کاروں کی بدولت ٹھس بھی ہوئی ہے اب کسی شرم و حیا کے بغیر ایک دوسرے پے کیچڑ اچھال رہی ہے بلکہ ردعمل میں مسٹر گیلانی نے بطور اپوزیشن لیڈر استعفیٰ بھی پارٹی قیادت کو ارسال کر دیا ہے مگر جب میں نے ان سے ان کی وجہ سے شکست ہونے کے متعلق بات کی تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی ذمہ دار حکومتی ملی بھگت اور کسٹوڈین آف ہائوس کی سہولت کاری ہے۔ مگر جب میں نے یہ کہا کہ کیا آپ کی اکثریت نہ تھی اور کیا آپ اس کے ردعمل میں حکومتی Tactes سے ناواقف تھے جبکہ عین موقع پر بشمول آپ کے 9 سینیٹر ’’Miss‘‘ تھے۔ اگر یہ حکومتی سہولت کار نہ بنتے تو کیا چیئرمین سینٹ جناب سنجرانی کو ووٹ ڈالنا پڑتا؟ جبکہ بل کی حمایت میں 43 اور مخالفت میں 42 ووٹ پڑے تھے۔ معذرت کے ساتھ اس پے ان کا جواب مناسب نہ تھا۔ بہرحال معزز قارئین! آپ کو یاد ہو گا۔ میں نے پیشگی یہ کہہ دیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت جس رفتار سے بل پہ بل پاس کرا رہی ہے اور اپوزیشن شکست پہ شکست کے بعد نڈھال ہے اس بار بھی حکومتی فتح ہو گی۔ ویسے بھی گزشتہ چند ماہ سے اپوزیشن کی دونوں بڑی اتحادی جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے پے کام کر رہی ہیں یا انہیں کام دے دیا گیا ہے۔ بالخصوص ن لیگ کی خاموشی پے سوالیہ نشان ہے؟ کیونکہ اب یہ جماعت نہ اپنے ’’بیانیہ‘‘ سے مخلص ہے نہ ایک نقطے پے منظم ہے بلکہ دونوں بھائی دو کشتیوں کے سوار ہیں اور اب اندھیرے کمرے میں کسی روشنی کی کرن کے منتظر ہیں۔ رہی بات بلاول بھٹو تو وہ بھی کافی کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں۔ اب ان کی گاڑی بھی رک جائے گی۔ البتہ میں ذاتی طور پر جناب فضل بھائی کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ وہ ایک معصوم مگر محب سیاست، سیاستدان ہیں۔ نہ جانے کیوں مجھے یہ گماں ہوتا ہے کہ جس طرح ماضی میں محترم نواب زادہ نصراللہ خاں کو استعمال کیا جاتا بالکل اسی طرح انہیں بھی ’’use‘‘ کر لیا جاتا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ میرا مشورہ بھی 
نہیں مانتے اور خود کو خود سے بھی بڑا جمہوری لیڈر سمجھتے ہیں۔ مگر آج کی ہار سے جو بے بسی مجھے ان کی آنکھوں میں دکھائی دی ہے، دل تڑپ اٹھا ہے۔ لہٰذا دست بدست اپیل کرتا ہوں کہ بلاشبہ آپ ذہین اور عقلمند سیاستدان ہیں مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ عقل انسانی عاجز ہے اس لئے تجزیاتی ہے یعنی تجزیہ کر سکتی ہے۔ احاطہ نہیں کر سکتی۔ مجبور ہے، جکڑی گئی ہے اس لئے ٹھنڈے دل سے سوچئے اور فیصلہ کیجئے ویسے بھی اب ضروری ہے کہ وہ خود بھی اپنی سیاست کا جائزہ لیں۔ لہٰذا امکان غالب ہے کہ وہ جلد جناب نوازشریف اور جناب بلاول کا اپنے کندھوں سے بوجھ اتار پھینکیں گے اور اکیلی پرواز بھریں کیونکہ اس سے جس طرح انہیں خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ملی ہے ایسی کامیابی پنجاب اور سندھ میں نصیب ہو سکے گی ورنہ؟۔ معذرت خواہ ہوں۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی حکومتی ’’management‘‘ کی تو جس طرح زندگی ایک متحرک سایہ ہے اگر حکومت بھی اس سائے کی طرح متحرک ہو جائے اور ’’Miss Managment‘‘ پے بھی دھیان دے، سقراط، بقراط، ارسطوئوں پے مبنی حکومتی ٹیم کی بجائے ایسی ٹیم تشکیل دے جو تجربہ، قابلیت، میرٹ اور محب وطن فرض شناس افسران اور وزراء کرام پر مشتمل ہو  تو یہ اپوزیشن تو کیا ایسی ہزار اپوزیشنز بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی اور اگر آپ نے بھی اپنی روش نہ بدلی اور یونہی عوام کا جینا دوبھر ہوتا رہا تو پھر تاریخ کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے بلکہ اس قدر ظالم بھی کہلاتی ہے کہ اس کے ہاں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شکیسپیئر نے کہا تھا کہ شرم کی کشش حسن سے زیادہ ہوتی ہے اور حسرت موہانی نے کہا تھا۔
شکوئہ غم تیرے حضور کیا
ہم نے بے شک بڑا قصور کیا
………………
٭… سپریم کورٹ کی اجازت…؟
٭… سپریم کورٹ نے راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبہ کالعدم قرار دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے اور پنجاب حکومت کو راوی اربن منصوبے پر کام جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے پنجاب حکومت کی قانونی ٹیم کی مناسب تیاری سے نہ آنے پر سرزنش بھی کی ہے۔ ویسے تو حصول آزادی سے لے کر تادم تحریر وطن عزیز نہ جانے کیسے کیسے بحرانوں اور مسائل و مشکلات کا شکار رہا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن عظیم مقاصد کے لئے وطن حاصل کیا گیاتھا ان کے مطابق یہاں ماسٹر پلان ترتیب دیئے جاتے مگر ہماری 74 سال کی تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے جس پر بھی بھروسہ کیا۔ اسی نے ہی دھوکہ دیا۔ بلکہ جس کے جتنے لمبے ہاتھ تھے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر نکلا جس کی بدولت ہم عظیم سلطنت بننے کی بجائے مقروض سلطنت بن گئے۔ عوام مہنگائی اور بدانتظامی کی بدولت وہ کردار ادا ہی نہ کر سکے جو انہیں کرنا چاہئے تھا۔ بہتری کی امید میں قومی زندگی کا سفر جاری رہا۔ لہٰذا نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کے مصداق عوام ہی نہیں بلکہ نظام چلانے والی بیوروکریسی اور انتظامیہ بھی طرح طرح کے بحرانوں سے دوچار رہی۔ اب جبکہ موجودہ حکومت ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کی خواہشمند ہے دلی دعا ہے کہ عوامی ضروریات کے پیش نظر بننے والا روڈا پراجیکٹ کا خواب جلد شرمندہ تعبیر ہو اور عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تاریخ ساز ثابت ہو۔

مصنف کے بارے میں