نفرت اور انتشار کی سیاست

نفرت اور انتشار کی سیاست

عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ آصف علی زرداری نے انھیں قتل کرنے کے لئے کسی دہشت گرد تنظیم کو پیسے دے دیے ہیں عمران خان کا مسئلہ اس ناکام اور فلاپ اداکارہ کا ہے کہ جس کی چند فلمیں بھائی لوگوں نے جیسے تیسے کر کے کامیاب کرا کر مقبولیت کا تاثر قائم کر دیا تھا لیکن جیسے ہی بھائی لوگوں نے اپنی آشیرباد کا ہاتھ اس اداکارہ کے سر سے ہٹایا تو اس کی مقبولیت اپنے اصل مقام پر آ گئی یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ شہرت اور مقبولیت میں فرق ہے 1980 کی دہائی میں بینظیر بھٹو بھی اتنی ہی مشہور تھیں جتنے کہ جنرل ضیا لیکن عوام میں دونوں کی مقبولیت میں زمین و آسمان کا فرق تھا اسی طرح عمران خان تو 70 کی دہائی کے شروع سے ہی شہرت رکھتے تھے اور ایک کرکٹر کی حیثیت سے عوام میں ان کی مقبولیت بھی تھی لیکن 1996 میں جب انھوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اس وقت تک یہ ایک بہترین کپتان کی حیثیت سے اپنا کیریئر ختم کر چکے تھے پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جتوا چکے اور جب 2002 کے الیکشن ہوئے تو شوکت خانم ہسپتال بھی بنا چکے تھے لیکن اس سب کے باوجود بھی بڑی مشکل سے میانوالی سے اپنی ذاتی سیٹ کے علاوہ کوئی سیٹ نہ جیت سکے۔ یہاں شہرت اور مقبولیت کی ایک بڑی مثال پڑوس کے ملک میں امیتابھ بچن کی ہے کہ جو ایک اداکار کے طور پر بے مثال شہرت کے حامل تھے لیکن جب سیاست میں آئے تو اس بری طرح سے ناکام ہوئے کہ میدان سیاست سے توبہ کر کے فقط اداکاری کے شعبہ کو جاری رکھا تو بات ہو رہی تھی کہ عمران خان کی مثال اس ناکام اداکارہ کی ہے کہ جس کو بھائی لوگوں نے چند فلمیں کامیاب کرا کر مقبولیت کا بھرم قائم کر دیا لیکن جب بھائی لوگوں نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا تو اداکارہ اپنے اصل مقام پر واپس آ گئی تو اب اسے میڈیا میں اپنی شہرت برقرار رکھنے کے لئے کسی نہ کسی ایشو کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران خان نے خبط عظمت میں مبتلا ذہنی کیفیت میں کسی کی نہ سنتے ہوئے اپنے بیگانوں کی آرا کو رد کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرتے ہوئے اپنے تئیں ماسٹر سٹروک کھیلا لیکن یہ ماسٹر سٹروک بیک فائر ثابت ہوا اور آج اس ماسٹر سٹروک کے مضمرات کا سامنا پوری تحریک انصاف کو کرنا پڑ رہا ہے یہ وہ صورت حال ہے کہ جس میں عمران خان کو ماسٹر سٹروک کے مضمرات کو کم کرنے کے لئے حسب سابق نفرت اور الزامی سیاست کا سہارا لینا پڑا۔
لگتا ہے کہ حکومت جانے کے بعد پے در پے ناکامیوں نے واقعی عمران خان کے ذہن پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈالا آپ غور کریں کہ جیسے ہی خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین ہوا تو اس کے بعد انھوں نے جو بھی اقدام اٹھائے وہ سب ناکامی سے دوچار تو ہوئے لیکن جو بھی کیا ان میں ایک قدر مشترک تھی کہ ہر عمل سے پاکستان کے معاشرے میں نفرت، انتشار اور انارکی میں اضافہ ہوا اب حالت یہ ہے کہ دونوں صوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کو وہ اپنے تئیں ماسٹر سٹروک سمجھ رہے تھے اور اس کے بعد انھوں نے صدر عارف علوی کے ذریعے شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ کہہ کر ایک اور ماسٹر سٹروک کھیلنا تھا لیکن حکومت نے اس سے پہلے ہی سپر ماسٹر سٹروک کھیل دیا اب ان پر چہار اطراف سے جب تنقید ہونی شروع ہوئی اور جس کا 
اظہار چودھری پرویز الٰہی نے بھی کیا اور صورت حال یک دم جس طرح تحریک انصاف اور خود ان کے خلاف ہو گئی کہ پنجاب میں بھی ان کی مرضی کے برخلاف حکومت آ گئی تو ان کا ذہنی خلفشار میں مبتلا ہونا ایک لازمی امر تھا اور اس ذہنی کیفیت میں انھیں اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کے لئے کسی نئے شوشے کی ضرورت تھی اسی لئے انھوں نے اپنے قتل کی بات کر کے الزام آصف علی زرداری پر رکھ دیا اور اپنی بوٹی کی خاطر دوسرے کا بکرا ذبح کرتے ہوئے انھیں اس بات کا خیال نہیں آیا کہ انھوں نے تو اپنی ذات کے تحفظ کے لئے اپنے کارکنوں کو ایک نیا بیانیہ دے دیا لیکن اس سے ملکی سیاست میں نفرت کی جس فضا نے جنم لیا ہے کل کو خدانخواستہ اگر ان کی ذات کو کوئی نقصان پہنچا تو اس میں جو ادھم مچے گا اس کی ذمہ داری کس پر آئے گی لیکن خان صاحب کو اس سے کیا اگر انھیں ملک کی  اتنی ہی فکر ہوتی تو ان کی گذشتہ ایک سال کی سیاست سے ملکی معیشت جس عدم استحکام کا شکار ہوئی ہے تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے لیکن نہ انھیں پہلے اس بات کا کوئی خیال آیا اور نہ اب آیا ہے۔ ان کی سیاست کو دیکھیں تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی تمام تر سیاست ان کی اپنی ذات کے گرد گھومتی ہے کہ وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔2008کے الیکشن کے بعد خان صاحب نے کہا کہ دوبارہ الیکشن کراؤ۔ 2013کے الیکشن کے بعد خان صاحب نے 35پنکچرز کے نام پر لانگ مارچ اور دھرنے دیئے لیکن بعد میں کہا کہ35پنکچرز والی بات تو ایک سیاسی بیان تھا۔ 2018میں جب خود بر سر اقتدار آ گئے تو اس وقت تک سب کچھ ٹھیک رہا کہ جب تک اتحادی بھی ساتھ تھے اور اسٹبلشمنٹ کا آشیر باد بھی سر پر تھا لیکن جیسے ہی صورت حال بدلی تو اتحادی اور اسٹبلشمنٹ دونوں ملک دشمن بھی ہو گئے غدار اور بکاؤ مال بھی۔ 
خان صاحب نے جو الزام لگایا ہے وہ کوئی معمولی نہیں ہے اور جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان کے الزامات کی مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہیے اور اگر عمران خان کے الزامات میں حقیقت ہے تو آصف علی زرداری یا جو کوئی بھی اس کا ذمہ دار ہے اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اگر اپنی سیاست چمکانے کے لئے یہ فقط سیاسی بیان ہے تو اس پر عمران خان سے جواب دہی ہونی چاہیے تاکہ کہیں تو جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانے کا بندوبست ہو اور اس کے ساتھ ساتھ شیخ رشید سے بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ انھیں اس سازش کا کہ آصف علی زرداری نے عمران خان کے قتل کی سپاری دی ہے کیسے پتا چلا عمران خان اور شیخ رشید دونوں سے ان الزامات کا ثبوت مانگنا چاہیے تاکہ سچ کا بول بالا اور جھوٹ کا منہ کالا ہو ورنہ تو عمران خان اور ان کے حواریوں نے وتیرہ بنا رکھا ہے کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے جب جو جھوٹ جہاں فٹ بیٹھا بول دیا اور اس وقت عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی ایک  وجہ یہ بھی ہے کہ لبرٹی چوک سے شروع ہونے والے ناکام ترین لانگ مارچ سے لے کر راولپنڈی کے ناکام جلسے تک اور پھر پنجاب میں محسن نقوی کے بطور نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر پر احتجاج کی کال پر کارکنوں کا سڑکوں پر نہ نکلنا یہ سارے عوامل عمران خان کی نام نہاد مقبولیت کا بھانڈا پھوڑنے کے لئے کافی ہیں اور خان صاحب کو بھی اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ آنے والے الیکشن کے کیا نتائج ہوں گے لہٰذا ان پر واویلا کرنے کے لئے انھوں نے ابھی سے کام شروع کر دیا ہے اور نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا اور زرداری صاحب پر اپنے قتل کا الزام لگانے یہ سب کچھ در حقیقت آنے والے انتخابات میں اپنی ناکامی کو جواز دینے کے بہانے ہیں۔