چیف جسٹس، چیئرمین نیب نے انتخابات پر اثر انداز ہونے کا تاثر مسترد کردیا

چیف جسٹس، چیئرمین نیب نے انتخابات پر اثر انداز ہونے کا تاثر مسترد کردیا
کیپشن: image by facebook

اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنے علیحدہ علیحدہ بیانات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔

 چیف جسٹس نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ وہ انتخابات میں کسی کی مدد نہیں کررہے، جبکہ چیئرمین نیب نے کچھ جماعتوں کی جانب سے لگائے گئے قبل از وقت دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا۔

مزید پڑھیئے:آرمی چیف نے 12 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کردی، آئی ایس پی آر
 
  
گزشتہ روز عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید کی درخواست پر چیف جسٹس نے زیر تعمیر 400 بستروں پر مشتمل راولپنڈی زچہ بچہ ہسپتال (آر سی ایم ایچ) کا دورہ کیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں کسی جماعت کی انتخابی مہم نہیں چلا رہا۔

میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک صحافی کی جانب سے انتخابی تیاریوں کے دوران شیخ رشید کی درخواست پر انہی کے حلقے میں قائم ہسپتال کا دورہ کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے کسی جماعت کی انتخابی مہم چلانے کا ٹھیکا نہیں لیا ہوا۔


 واضح رہے کہ دورے سے قبل سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں آرسی ایم ایچ کے حوالے سے سماعت ہوئی، جس کے فوراً بعد شیخ رشید نے انہیں یہ کہتے ہوئے زیر تعمیر ہسپتال کا دورہ کرنے کی دعوت دی کہ اگر آپ دورہ کریں گے تو 2006 سے التوا کا شکار ہسپتال کے منصوبے پر دوبارہ کام کا آغاز ہوجائے گا۔

مزید پڑھیئے:حمزہ شہباز نے مریم نواز کے لیے انتخابی مہم کی ذمہ داری لے لی
 
 
اس سے قبل دوران سماعت نیشنل انجینیئرنگ سروس کے حکام کی جانب سے چیف جسٹس کو ہسپتال کی تعمیر کے معاملے پر بریفنگ دی گئی تھی جس پر ان کا کہنا تھا کہ اب دورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم سماعت کے اختتام پر انہوں نے اچانک راولپنڈی جانے کے احکامات دے دیئے۔

خیال رہے کہ راولپنڈی زچہ و بچہ ہسپتال عید گاہ روڈ پر کئی دہائیوں قبل قائم ہونے والے تپ دق کے ہسپتال کی جگہ پر زیر تعمیر ہے جو عام طور پر ٹی بی ہسپتال کے نام سے معروف تھا ، یہ منصوبہ وفاقی حکومت کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے شروع کیا تھا تاہم 18 ویں ترمیم کے بعد یہ پنجاب حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا۔

ابتدا میں پنجاب حکومت نے منصوبہ لینے سے انکار کیا تھا، اسی دوران ہسپتال کی گنجائش بڑھاتے ہوئے 2 کے بجائے 14 آپریشن تھیٹرز کردیے گئے جس کے بعد یہ معاملہ مزید فنڈ کی فراہمی کے باعث واپس وفاقی حکومت کو منتقل کردیا گیا تھا۔