سرمایہ دار طبقہ خود قربانی کیوں نہیں دیتا…؟؟؟

سرمایہ دار طبقہ خود قربانی کیوں نہیں دیتا…؟؟؟

 اس وقت پاکستان بند گلی میں ہے قوم بند گلی میں ہے معیشت بند گلی میں ہے سیاست بند گلی میں ہے جن مسائل اور مصائب کا سامناہے پاکستان کو ان مسائل اور مصائب سے نکالنے کے لئے ایک جماعت کے بس کی بات  نہیں لگتی ،اس میں ساری جماعتیں سارے ادارے کچھ عرصے کے لئے مل کر کچھ چیزوں پر سیاست نہ کریں اور آگے بڑھیں تو بہت اچھا ہو لیکن ہماری انا بڑی ہے ضد بڑی ہے عمران خان کبھی مذاکرات کی طرف نہیں آئیں گے وہ سمجھتے ہیں کہ اتحادی حکومت نے  میری حکومت کا تختہ الٹا سیاستدان اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں اور دوسری طرف ملک میں مہنگائی کا جن بے قابو ہے دیکھا جائے تو  پی ڈی ایم  اور پی ٹی آئی کی حکومت نے قوم کو رلایا ہے اور ماضی کی طرح ایک بار پھرغریب سے قربانی مانگی گئی ہے ، سرمایہ دار طبقہ قربانی دیگا تو حالات ٹھیک ہونگے دونوں نے ملک کی خودمختاری کا سودا اور نوجوانوں کا مستقبل گروی رکھ دیا ہے ملک آزاد ہے اس کے باوجود  فیصلے آئی ایم ایف کر رہا ہے حکمرانوں کے اثاثے آئے روز بڑھ رہے ہیں اور عوام کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے وسائل نہیں، جب بھی مشکل وقت آتا ہے تو غریبوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ قربانی دیں ، کوئی چائے کم پینے کے مشورے دے رہا ہے، تو کوئی کہتا ہے کہ ایک وقت کی روٹی کم کرو ،غریب اپنا خون بھی ملک کو دے دیں  توحالات ٹھیک نہیں ہو سکتے جب تک یہ ظالم سرمایہ دار طبقہ خود قربانی نہیں دیتا دو فیصد حکمران ملک کے 99فیصد وسائل پر قابض ہیں، حکمران سودی نظام کو تقویت دینے سے باز رہیں،  حکمرانوں نے سپر مہنگائی کے بعد سپر ٹیکسز بھی لگا دیے، سودی نظام، کرپشن اور مہنگائی نے عوام کو نچوڑ کر رکھ دیا حکمران جماعتیں عوام کو ایک دفعہ پھر دھوکا دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں، قوم اگلے الیکشن میں جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ سرمایہ کا احتساب کرے تو ملک کے حالات بہترہو سکتے ہیں ورنہ رونا دھونا اسی طرح ہی چلتا رہے گا،تجربہ کا ر حکمرا ن ٹولہ نے اقتدارمیں آتے ہی ہر شعبے کی اینٹ سے اینٹ بجا د ی بجلی بحرا ن بدترین صورتحا ل اختیار کر گیا9 ہزارمیگاواٹ کی قلت 16گھنٹے کی لو ڈشیڈنگ ملک کا پہیہ جا م کر چکی ، کھوکھلی تقر یروں سے کو ئی تبدیلی نہیں آ ئے گی، ایک طرف مہنگائی کے ریکارڈقائم کیے جا ر ہے ہیں تودوسر ی طرف مہنگائی کی ذمہ داری  عمران خا ن پر ڈا ل کر عوا م کی آنکھوںمیں دھو ل جھونکنے کی نا کا م کو شش کی جا ر ہی ہے ، حکمرا نو ں کا 3 مہینے کا عرصہ اقتدار عوا م  پر بھاری ہو گیاہے کیونکہ عوا م مہنگائی کے ایک حملے سے سراٹھا نہیں پاتے کہ دوسرا حملہ کر د یا جاتا ہے ، بجلی کی قیمت میں 8روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے جس سے صارفین پر 113 ارب رو پے کا 
بوجھ پڑے گا حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر50روپے لیوی ٹیکس لگاکرعوام دشمنی کاثبوت د یا ہے ،وزارت خزانہ نے پاکستان کی معیشت کو درپیش تین بڑے خطرات کو اجاگر کیا ہے جن میں شرح سود میں مزید اضافے کا امکان، شرح مبادلہ میں کمی اور گھریلو صارفین کی قیمتوں کی شرح میں مسلسل اضافہ شامل ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جوسی ایف وائی کی پہلی 3 سہ ماہیوں کے دوران زیادہ رہا اس مالی سال کے آخر تک اور اس کے بعد سست ہو سکتا ہے، تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کو ملکی توانائی کی مصنوعات میں 
منتقل کرنے میں تاخیر سے افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے، بین الاقوامی اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور مستحکم ہونے کے بعد افراط زر کا دباؤ کم ہو سکتا ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ پاکستان کی ترقی کے امکانات تسلی بخش رہنے کی توقع ہے لیکن ممکنہ خطرات کی تعداد اسے زیادہ سے زیادہ راستے سے ہٹا سکتی ہے، سب سے پہلے پاکستان کے اہم تجارتی شراکت داروں کی بار بار رونما ہونے والی پوزیشن کسی حد تک خراب ہو رہی ہے،سٹیٹ بینک کی ڈیمانڈ مینجمنٹ پالیسی شاید زیادہ موثر نہ ہو جیسا کہ مہنگائی کی موجودہ لہریں بڑی حد تک سپلائی کی رکاوٹوں اور بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ بالخصوص اشیاء کی قیمتوں کی وجہ سے ہیں، شرح مبادلہ میں کمی بھی تشویش کا باعث ہے جیسا کہ اس سے درآمد شدہ خام مال زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے ،گھریلو صارفین کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ حقیقی آمدنی کو کم کر رہا ہے جس سے صارفین اور سرمایہ کاروں کی خرچ کرنے کی طاقت محدود ہورہی ہے، پاکستان میں افراط زر کی وجہ بیرونی اور اندرونی دونوں عوامل ہیں، بین الاقوامی اشیاء کی قیمتیں، خاص طور پر تیل اور خوراک کی قیمتیں بنیادی بیرونی محرک ہیں، گھریلو سپلائی چین اور مارکیٹ کی توقعات بھی افراط زر کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، حکومت نے بڑھتے ہوئے جڑواں خسارے پر قابو پانے کے لیے ایندھن اور توانائی کی مصنوعات پر سبسڈی واپس لے لی ہے جس کے نتیجے میں تیل کی تمام مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھا جا رہا ہے، حکومت مختلف پروگراموں کے ذریعے معاشرے کے غریب ترین طبقے کے بوجھ کو کم کرتی رہے گی ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمران آئی ایم ایف کے چکر سے نکل کر عوام کو بھوک وافلاس سے بچائیں، حکومت عوام کو ریلیف دیئے بغیر معاشی ترقی کی طرف نہیں جاسکتی،معاشی ترقی کیلئے پوری دنیا میں غریبوں،مزدوروں اور کسانوں کو سہولیات مہیاکی جاتی ہیں،حکومتی معاشی سخت پالیسیوں اور مہنگائی کی وجہ سے فیکٹریاں بند ہورہی ہیں جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے حکومت سنجیدگی کے ساتھ مہنگائی  ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے تاکہ عوام کو سکھ کا سانس مل سکے۔

مصنف کے بارے میں