پاکستان، اسرائیل کو تسلیم کرے؟

پاکستان، اسرائیل کو تسلیم کرے؟

90ء کی دہائی میں عظیم اشتراکی ریاست کے انہدام کے بعد سرد جنگ کا خاتمہ ہو گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل امریکہ نے خود ہی اپنے آپ کو عالمی سیاست کا واحد لیڈر قرار دے کر دنیا میں ایک نیا عالمی نظام تشکیل دینا شروع کردیا۔ ’’تاریخ کا خاتمہ‘ جیسی علمی و تحقیقی کتاب کی اشاعت کے بعد ’’تہذیبوں کی کشمکش‘‘ کے اجرا نے نئے عالمی نظام کے خدوخال واضح کر دیئے۔ امریکہ نے عسکری اور معاشی طاقت کے بل بوتے پر دنیا کی تشکیلِ جدید کا ذمہ لے لیا۔ مشرق وسطیٰ میں عراقی صدر صدام حسین اور لیبیا کے کرنل قذافی کا خاتمہ اسی تشکیل نو کا حصہ ہیں۔ شام میں ایک عرصے سے جاری لڑائی بھی نئے عالمی نظام کا حصہ ہے افغانستان میں لڑی جانے والی 20 سالہ جنگ بھی اسی امریکی غرور اور تکبر کا اظہار ہے جس کی بنیاد پر وہ دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کو غالب کرنا چاہتا ہے۔ افغانوں نے اپنی تاریخ کے عین مطابق امریکی عسکری برتری کا غرور ایسے ہی خاک میں ملا دیا ہے جیسے اس سے پہلے اشتراکی افواج اور اس سے بھی پہلے برطانیہ عظمیٰ کی شاہی افواج کا کریاکرم کر دیا تھا۔ دوسری طرف چین کی معاشی ایمپائر نے امریکہ کی عالمی اقتصادی برتری کو کھلے عام چیلنج کر دیا ہے ۔ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت دنیا کے تین براعظموں یورپ، ایشیا اور افریقہ میں اپنے قدم جما چکا ہے۔ اس کی معاشی قوت دن بدن مستحکم ہوتی چلی ج رہی ہے۔
اس پس منظر میں دیکھیں تو ہم نے ابھی تک نہ ہی فکری اعتبار سے کوئی واضح پالیسی اختیار کی ہے کہ ہم فکری اعتبار سے کیا ہیں، کس کے ساتھ کھڑے ہیں ہمارے کون دوست ممالک ہیں، ہماری خارجہ پالیسی کیا ہو گی، ہم نئی دھڑہ بندی کی شکار عالمی سیاست میں کس طرح زندہ رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اشتراکی سلطنت کے خاتمے تک ہم واضح طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک کے ساتھ تھے ہماری خارجہ پالیسی اور ہماری قومی اقتصادیات اسی نظام سیاست و نظام زر کے ماننے والوں کے ساتھ تھی ہم اشتراکیت کی حمایت نہیں بلکہ مخالفت کرتے تھے یہی ہماری ریاستی پالیسی تھی اور یہی ہمارا قومی چلن تھا۔ ہمارے ہاں کمیونزم کو ماننے والے بھی تھے جنہیں سرخے کہا جاتا تھا لیکن ان کی یہاں ہمارے معاشرے میں پذیرائی نہیں تھی ہم سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کے ذریعے امریکی اتحادی تھے ہم نے ہمیشہ امریکی پالیسیوں کا ساتھ دیا اور امریکی نظام اقتصاد و زر کے تابع رہے۔
اب عالمی صورتحال بدل چکی ہے امریکی عسکری و اقتصادی برتری اور عظمت ایک خواب ہونے جا رہا ہے چین ایک عالمی قوت کے طور پر منظر پر ابھر چکا ہے اس کے ساتھ ساتھ سابقہ سپرپاور روس بھی انگڑائیاں لے رہا ہے یوکرائن کی جاری جنگ میں اس نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے امریکہ اور اس کے حواریوں کو للکار رہا ہے بڑے دھڑلے کے ساتھ چیلنج کر رہا ہے اور اپنے منصوبے کے مطابق لشکر کشی جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ اور اس کے حواری دبے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ 20 سالہ افغان جنگ نے امریکہ اور اس کے حواریوں کے سارے کس بل نکال دیئے ہیں۔ امریکی عسکری ہیبت تو افغان طالبان نے ٹکڑے ٹکڑے کر دی ہے۔ اس جنگ میں 3 ہزار ارب ڈالر کے عسکری اخراجات نے امریکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ یوکرائن کی طوالت پکڑتی جنگ، امریکی و یورپی معیشتوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے تیل و گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث اشیا کی رسد کی عالمی منڈی میں الٹ پھیر ہو رہا ہے، افراط زر بھی پڑھ رہا ہے اور اشیا و خدمات کی سپلائی لائن بھی افراط و تفریط کا شکار ہوچکی ہے۔
ہماری سیاسی صورتحال بھی مضطرب ہے اور معاشی صورتحال بھی پریشان کن ہے۔ فکری اعتبار سے ہم دیوالیہ پن کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہم قومی اداروں کو اپنے ذاتی نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اگر ادارے ’’میری مرضی‘‘ کے مطابق فیصلہ کریںتو میں انہیں سلیوٹ پیش کرتا ہوں اور اگر فیصلہ یا ایکشن میری توقعات اور منشا کے مطابق نہ ہو تو انہیں دشنام سے نوازتا ہوں چاہے ان کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا رویہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے۔
ہم 1948 سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوشاں ہیں اس ایشو پر کئی چھوٹی بڑی جنگیں بھی ہو چکی ہیں بھارت دشمنی ہمارے قومی خمیر کا حصہ بن چکی ہے اسی دشمنی میں ہم اپنا ایک بازو، مشرقی پاکستان کٹوا بھی چکے ہیں لیکن ہنوز ہم کشمیر اور کشمیریوں کے لئے بھارت کے ساتھ اِٹ کھڑکا لگائے ہیں ہیں۔ بھارت سرکار نے مودی کی قیادت میں کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کر کے اسے بھارتی یونین میں ضم بھی کر لیا ہے۔ انہوں نے ایسا اپنے آئینی و قانونی طریق کار کے مطابق کیا ہے اپنے 
تئیں وہ مسئلہ کشمیر حل کر چکے ہیں۔ پاکستان اب صرف لکیر پیٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ہماری عسکری و سفارتی طاقت اس قدر نہیں ہے کہ ہم بھارت کو مسئلہ کشمیر کا حل سمجھا سکیں اس کے باوجود ہم نے بھارت کو تسلیم کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ کئی معاملات بھی چل رہے ہیں۔
دوسری طرف مسئلہ فلسطین ہے اسرائیل نے، یہودیوں نے اس مسئلے کو اپنے تئیں حل کر لیا ہے۔ ارض مقدس پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔ یروشلم پر نہ صرف قبضہ کر لیا ہے بلکہ اسے ریاست اسرائیل کا دارالحکومت بھی قرار دے دیا ہے۔ دو درجن سے زائد عرب ممالک میں اتنی قوت و طاقت نہیں ہے کہ وہ چھوٹے سے ملک کو سبق سکھا سکیں اس سے قضیہ فلسطین پر منصفانہ معاملہ طے کر سکیں۔ عربوں کی اجتماعی سفارتی و عسکری قوت بھی اس قدر موثر نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو مسئلہ فلسطین پر عربوں کے ساتھ کسی پائیدار سمجھوتے پر مجبور کر سکے جس طرح پاکستان مسئلہ کشمیرعملاً ہار چکا ہے اسی طرح عرب بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنا کیس ہار چکے ہیں۔
عربوں نے اسرائیل کو ایک طاقتور ریاست تسلیم کر لیا ہے عربوں کا عسکری بازو، مصر کافی عرصہ پہلے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکا ہے۔ بحرین و اردن بھی اس معاملے میں یکسو ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای وغیرہ بھی بالواسطہ اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ترکی بہت پہلے اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے عربوں میں خاصی آمادگی پیدا ہو چکی ہے لیکن وہ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ فلسطین کی اس طرح آزادی جیسی عرب چاہتے ہیں، ممکن نہیں ہے اسرائیل عرب علاقوں پر قبضہ کر کے شہر مقدس پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارالحکومت بھی بنا چکا ہے۔ عالمی فیصلوں کا مرکز بھی واشنگٹن سے اٹھ کر تل ابیب منتقل ہوا چاہتا ہے ایسے حالات میں عربوں نے یہ بہتر جانا ہے کہ ایک حقیقت کو تسلیم کر ہی لیا جائے۔
ہم دیگر معاملات کی طرح اسرائیل کے حوالے سے بھی گومگو کا شکار ہیں ہم اپنے ازلی دشمن، 23 کروڑ بھارتی مسلمانوں اور 22 کروڑ پاکستانی مسلمانوں کے دشمن بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ ہم کشمیری مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اس سے کسی نہ کسی سطح پر تجارت بھی ہوتی رہتی ہے۔ جنگی حالات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس کی فلمیں اور گانے بھی ہم تک پہنچتے اور پسند کئے جاتے ہیں پھر اسرائیل کے ساتھ معاملات کرنے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے ہم تذبذب کا شکار کیوں نظر آتے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے ذرا سی خبر ہمارے ہاں ہلچل کیوں مچا دیتی ہے ہمیں اس حوالے سے پائے جانے والے فکری انتشار کو ختم کرنا چاہئے۔

مصنف کے بارے میں