یو ٹرن کا شہنشاہ

یو ٹرن کا شہنشاہ

ملک کے سیاسی حالات جس تیزی سے تبدیل ہوئے اور اس کے بعد عمران خان نے جس طرح حکومت پر دباؤ بڑھایا اس سے لگ یہی رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی قوت ہے جو اس کی حمایت کر رہی ہے۔ پشاور جانے کے فیصلے کے بعد بہت سی انگلیاں کچھ اداروں اور شخصیات کی جانب اٹھ گئی ہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنے کی کال نے ملک میں ہیجان برپا کر دیا تھا۔ اس تاثر کو منظم انداز میں پھیلایا گیا کہ عوام عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہے۔ اسی طرح کا بیانیہ 2018 کے انتخابات سے قبل بھی بنایا گیا تھا۔ عمران خان کے جلسوں اور اس لانگ مارچ میں بہت سی چیزیں مماثلت رکھتی تھیں اس لیے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ادارے مجبور ہو کر عمران خان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے مگر شائد انہیں علم نہیں تھا کہ عمران خان کو جن اداروں نے تربیت دی تھیں وہ اس سے بڑے کھلاڑی ہیں۔ انہیں جن بنانا بھی آتا ہے اور پھر اس جن کو بوتل میں بند کر کے کسی اندھیری کوٹھری میں رکھنے کا ہنر بھی وہ جانتے ہیں۔
اس ملک میں مکمل جمہوریت کبھی نہیں آئی ہاں جمہوریت کے نام پر تجربات ضرور ہوئے ہیں۔ قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کے شہادت نے اس طبقے کو مضبوط کیا جو جمہوریت اور جمہوری اداروں کو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ مرضی کی تاویلات اور فیصلوں نے جمہوری اور پارلیمانی نظام کے چہرے کو داغدار کر دیا اور رہی سہی کسر عدالتی فیصلوں نے پوری کر دی۔ عدالت بھی اس کھیل کا حصہ بن گئی اور اس کے بدلے میں ترقیاں اور مراعات حاصل کرتی رہی۔ جب فوج کو اقتدار کا نشہ لگا تو اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ سیاست دان تھے جو گھسیٹ کر فوج کو اقتدار کے ایوانوں تک لے آئے اور آج فوج اتنی طاقتور ہو گئی کہ وہ آئین میں موجود اپنے کردار سے آگے بڑھ کر کام کرنے پر مکمل یقین رکھنے لگی۔ آج فوج اپنے ترجمان کے ذریعے یہ یقین دہانی کرا رہی ہے کہ وہ صرف اپنے آئینی کردار تک محدود ہو گئی ہے اور اس سے زیادہ کوئی بھی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کی تحسین ہونے چاہیے کہ اس فیصلے سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہو گی اور ایک مخصوص عرصے کے بعد جس طرح فوج اقتدار میں آ جاتی تھی یا اسے یہ کردار ادا کرنے پر مجبور کر دیا جاتا اس رجحان کا خاتمہ ہو سکے گا۔ 
فوج کو ایک طرف رکھیں لیکن ملکی سیاست کا تعفن ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس کا سہرا جناب عمران خان کے سر جاتا ہے جنہوں نے سیاست کے اس کھیل کو حق اور باطل کی جنگ بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اس کرسی کی خاطر انہوں نے کیا کچھ نہیں کہا۔ اپنے ہر وعدے اور دلیل کی نفی کرنے کو ایک اعزاز سمجھا اور یو ٹرن کو عین سیاست اور لیڈر کی شان قرار دیا۔ گالی گلوچ کا کلچر تحریک انصاف کا خاصہ ہے اور اس کلچر کو پروان چڑھانے میں اس کے لیڈر کے ساتھ دوسرے درجے کی قیادت اور اس کے کارکنوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ اس کی بدبو اتنی آسانی سے ختم نہیں ہو گی۔ 
اب یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ عمران خان واپس اسمبلیوں میں آنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں اور پارٹی کے اندر اس آپشن پر بحث ہو رہی ہے تاکہ لانگ مارچ اور دھرنے کی ناکامی کے بعد پارٹی کو شکست و ریخت سے بچایا جا سکے۔ عمران خان کے اتحادی شیخ رشید نے تو انہیں بیچ چوراہے ننگا کر دیا اور ایک انٹرویو میں یہ کہہ دیا کہ بیرونی سازش والا خط جس نے بھی ڈرافٹ کیا ہے اس نے عمران خان کی خدمت کی ہے۔ یعنی انہوں نے یہ بتا دیا کہ خط کا ڈرامہ ان کے خدمت گاروں نے ان کے لیے تیار کیا اور اب وہ اس کے بل بوتے پر سیاست کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس غبارے سے ہوا نکلتی جائے گی اور عمران خان پھر کوئی سٹنٹ تیار کر لیں گے۔ اب اسمبلیوں میں واپسی کا راستہ کیوں اختیار کیا جا رہا ہے، اس کی مختلف توجیہات بیان کی جا رہی ہیں۔ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ان کے پس پردہ قوت نے انہیں کہا ہے کہ وہ اسمبلیوں میں جائیں تاکہ حکومت کو قانون سازی کے لیے جو فری 
ہینڈ ملا ہے وہ ختم ہو سکے کیونکہ حکومت اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مل کر اپنی مرضی کا الیکشن کمشنر اور چیرمین نیب تعینات کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس وقت اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض حکومت کے اتحادی ہیں اور آئندہ انتخابات میں وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے ان حالات میں وہ حکومت کی ہر تجویز کو من و عن مان لیں گے اور ہر وہ کام کریں گے جس سے مسلم لیگ ن کو تقویت ملے۔ اس لیوریج کو ختم کرنے کے لیے انہیں اسمبلیوں میں ہونا چاہیے۔ 
عوام عمران خان کے اس رویے پر حیران ہیں کہ ایک طرف وہ اسمبلیوں کو توڑ کر نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے مزے لے رہے ہیں اور صوبائی حکومت کے سرکاری وسائل اپنے دھرنے اور احتجاجی تحریک کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر وہ اپنے اس مطالبے میں مخلص ہیں تو انہیں نہ صرف قومی اسمبلیوں سے استعفوں کے اعلان کے بعد کے پی کی اسمبلیوں کو توڑنا چاہیے تھابلکہ سینٹ کی نشستوں سے استعفی دینا چاہیے تھا۔ ابھی تک وہ پنجاب اسمبلی کی نشستوں سے بھی مستفید ہو رہے اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی اطلاعات موجود ہیں۔ اگر عمران خان ایک بار پھر اسمبلی کا رخ کرتے ہیں تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ انہیں یو ٹرن کا شہنشاہ کہا جائے۔
اس وقت ان کی جو لوگ حمایت کر رہے ہیں ان میں سیاسی ورکروں کی تعداد بہت کم ہے جو اس کے اقدامات پر تنقید کرتے ہیں اور اصلاح احوال کی تجاویز دیتے ہیں باقی تو ان کے اندھے مقلد ہیں اور اس کے صحیح اور غلط پر تبصرہ کرنے کو بھی گناہ عظیم سمجھتے ہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنے والے دن ان کی اکثریت سوشل میڈیا پر انقلاب لانے کے لیے متحرک رہی لیکن گرمی میں باہر نکلنے کے لیے راضی نہ ہوئی اور یوں عمران خان کا انقلاب 48 درجے سنٹی گریڈ پر ہی پگھل گیا۔ رانا ثنا اللہ کے آنسو گیس کے شیل اور پولیس کے ڈنڈوں نے اپنا اثر دکھایا اور سب دبک کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ چلے تھے آج کے بھٹو بننے۔ شیخ رشید نے اعلان کیا تھا کہ اس لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران لوگ احتجاج کرتے ہوئے خود سوزی کریں گے کوئی جیالا یا انقلابی باہر نہیں نکلا ہاں انہوں نے اسلام آباد کی گرین بیلٹس کو ضرور آگ لگا دی۔ اسلام آباد جل رہا تھا اور عمران خان اس آگ کو بجھانے کے بجائے واپس پشاور چلا گیا۔
اسمبلی میں واپسی کے لیے پیش کش آنا شروع ہو گئی ہے اور اس کا آغاز عمران خان کے اس بیان سے ہوا کہ اگر حکومت جون میں انتخابات کا اعلان کرے تو وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا اور اب پارٹی کی جانب سے مختلف مطالبات پیش ہو رہے ہیں۔ عمران خان اپنی بارگینگ پوزیشن کھو چکے ہیں اور اس میں ان کے ناکام دھرنے نے اہم کردار ادا کیا جسے خود انہوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی نہیں کر سکے۔ فواد چوہدری جو عمران خان کے وزیر اطلاعات تھے انہوں نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں برف کو مزید پگھلایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی الیکشن کمشنر کی تبدیلی کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے کو تیار ہے۔ اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ جو الیکشن کمیشن راجا ریاض جیسے کردار کے آدمی کے دستخط سے وجود میں آیا ہو، اس الیکشن کمیشن کی کیا عزت ہوگی۔ نئے انتخابات کی شرائط اور طریقہ کار پر بھی ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ حکومت اسمبلی سے باہر بیٹھی ہوئی جماعت سے مذاکرات کرے گی۔ آپ نے جس مسئلہ پر بھی گفتگو کرنی ہے اسمبلی کے اندر ہو گی اور یہ بات جتنی جلدی تحریک انصاف کو سمجھ آ جائے اچھی بات ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
ہر روز ایک پریس کانفرنس کرنے یا جلسے کرنے سے ان کا بیانیہ مضبوط نہیں ہو گا بلکہ وہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتے جائیں گے۔ خود انہوں نے اس بات کا عتراف کر لیا کہ ان کے دھرنے میں عسکریت پسند موجود تھے اور لوگ مسلح ہو کر پولیس پر فائرنگ کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے عمران خان کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے دھرنا دینے کے بجائے واپسی کی راہ کا انتخاب کیا۔ ان کے اس بیان نے حکومت کی اس بات کو سچ ثابت کر دیا کہ عمران خان کی یہ تحریک پرامن احتجاج نہیں تھا بلکہ مسلح لوگ اسلام اباد کو یرغمال بنانا چاہتے تھے انہوں نے سپریم کورٹ کو بھی شرمندہ کر دیا جس نے حکومت کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ عمران خان کے جلسے اور جلوس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس حکم پر اس طرح عمل ہوتا کہ اسلام آباد میں ایک لائٹ تک نہ ٹوٹتی مگر وہاں پٹرول بم چلائے گئے درختوں اور میٹرو اسٹیشن کو آگ لگا دی گئی۔ اس بیان کے بعد کیا سپریم کورٹ ان کے لیے کوئی اس قسم کا حکم نامہ جاری کرے گی کہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی جائے اور اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ اسلام آباد میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ نہیں ہو گی۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ اپنی فورس کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے۔ فورس سے مراد وہاں کی پولیس ہے۔ اس دھرنے میں بھی ان کی پولیس نے پنجاب کی حدود میں آکر کارروائی کی تھی۔
عمران خان اس نظام کے اندر رہ کر زیادہ بہتر طور پر پرفارم کر سکتے تھے۔ معیشت کو وہ جس نہج تک پہنچا چکے تھے کسی بھی حکومت کے لیے اسے آگے لے کر چلانا مشکل تھا۔ چوں چوں کے مربے سے جو حکومت بنی تھی وہ کسی بھی وقت اپنی اکثریت کھو کر ان کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار کر سکتی تھی مگر انہوں نے نظام سے باہر جانے کو ترجیح دی۔ عمران خان نے ان قوتوں کے پاس بھی کوئی کردار نہیں چھوڑا جو پردے کے پیچھے رہ کر الٹ پلٹ کرتی تھی۔ اب ان کے پاس بھی شہباز شریف ہی واحد آپشن کے طور پر موجود ہیں۔ اگر انہیں ہٹانا مقصود ہوا تو وہ اسمبلی سے نہیں ہو گا بلکہ عدالت سے ہو گا۔ حکومت نے جو فیصلے کیے ہیں اس سے یہ واضح ہو گیا کہ وہ چند ہفتوں کے مہمان نہیں ہیں بلکہ وہ اگلی ٹرم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ لگ رہا ہے کہ یو ٹرن کا شہنشاہ اپنی سلطنت سے محروم ہو چکا ہے۔

مصنف کے بارے میں