پی ایس ایل فائنل میں پنجاب کوخیبرپختونخوا حکومت کی سیکیورٹی تعاون کی پیشکش

پی ایس ایل فائنل میں پنجاب کوخیبرپختونخوا حکومت کی سیکیورٹی تعاون کی پیشکش

پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل)کے فائنل کیلئے اگر وزیراعلیٰ  پنجاب شہباز شریف ضروری سمجھیں تو خیبرپختونخوا میں ہماری صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک سیکیورٹی انتظامات کے سلسلے میں ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے علی محمد خان نے واضح کیا کہ اگر دہشت گردوں کا مقصد لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل میں رکاوٹ ڈالنا ہے تو پھر ہم سب مل کر ان کے اس مقصد کو ناکام بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے پی ایس ایل فائنل کی سیکیورٹی کی یقین دہانی سے تمام خدشات کا خاتمہ ہوگیا ہے، لہذا اب ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ میچ پر امن رہے۔ان کا کہنا تھاکہ ہمیں چاہئے کہ صرف ایک میچ نہیں بلکہ پورا پی ایس ایل ہی پاکستان میں کروائیں کیونکہ جب تک ہمارے ملک میں اس طرح کے ایونٹس نہیں ہوں گے تب تک کرکٹ فروغ نہیں پاسکتی۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ کرکٹ کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو ایک اچھا پیغام ملے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں کرکٹ مکمل طور پر اسی وقت بحال ہوسکے گی جب ہم اپنی علاقائی ٹیموں کو مضبوط کرکے ایسے میچز کروائیں گے۔ یاد رہے کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں منعقد ہوتا نظر نہیں آرہا تھا، لیکن 27 فروری کو اہم اجلاس کے بعد حکومت پنجاب نے فائنل کا انعقاد لاہور میں کرانے کا حتمی اعلان کیا۔

اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کے فیصلے کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا خواہشمند مجھ سے زیادہ اور کوئی نہیں ہوگا، لیکن پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانا ایک بہت بڑا رسک ہے، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ پاکستان سپر لیگ کے فائنل کے لاہور میں انعقاد کے اعلان کے بعد شائقین کرکٹ کا جوش و خروش بڑھ گیا ہے اور لوگ ٹکٹ کے حصول کی دوڑ میں مصروف ہیں۔تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق فائنل کے تمام آن لائن ٹکٹس گذشتہ روز بارہ بجے سے پہلے ہی فروخت ہوگئے، بینکوں کے باہر طویل قطاریں نظر آئیں جبکہ متعدد مقامات پر تلخ کلامی کے واقعات بھی سامنے آئے۔

مصنف کے بارے میں