یونیورسٹی طالبات نے لال بیگوں سے آٹا تیار کر لیا

یونیورسٹی طالبات نے لال بیگوں سے آٹا تیار کر لیا

یونیورسٹی طالبات نے لال بیگوں سے آٹا تیار کر لیا

نیویارک: آئندہ چند سال کے دوران غذائی قلت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بننے کا امکان ہے لیکن برازیل کی طالبات نے اس کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔

برازیل کی فیڈرل یونیورسٹی آف ریو گرینڈ کی طالبات آندریسا لوکاس اور لارین مینگون نے مستقبل میں دنیا بھر میں غذائی قلت کو بھانپتے ہوئے لال بیگوں سے آٹا بنایا ہے جس سے نہ صرف روٹیاں بنائی جاسکیں گی بلکہ ڈبل روٹی، بسکٹ سمیت ہر قسم کے بیکری آئٹم بنائے جاسکتے ہیں۔

لال بیگوں سے تیار کردہ  آٹے میں گندم کے آٹے کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ پروٹین ہوتے ہیں جب کہ  لال بیگوں پر ریسرچ کرنے والی طالبات کا کہنا ہے کہ لال بیگوں سے تیارہ کردہ آٹے میں بہت زیادہ مقدار میں امائنو ایسڈ اوراعلیٰ معیار کے فیٹی ایسڈ ہوتے ہیں جیسا کے اومیگا 3 اور اومیگا 9۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ کیڑے مکوڑے بھی آئندہ آنے والے وقتوں میں انسانی خوراک کا اہم ذریعہ ہوں گے کیوں کہ ان میں بڑی مقدار میں پروٹین موجود ہوتے ہیں اور خاص طور پر غذائی قلت کے شکار افراد کیڑوں مکوڑوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنا کر غذائی کمی دور کرسکتے ہیں ۔

تحقیق کے دوران لوکاس اور مینگون اس نتیجے پر پہنچیں کہ گندم کے آٹے میں صرف 10 فیصد اور لال بیگ سے تیار کردہ آٹے میں 49.16 فیصد پروٹین ہوتے ہیں تاہم دونوں طالبات نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ انہوں نے لال بیگوں سے کس طرح آٹا تیار کیا۔ طالبات نے اپنی ریسرچ میں اس بات پر زور دیا کہ مستقبل قریب میں دنیا کو غذائی کمی کا سامنا پڑ سکتا ہے اس لئے کیڑے مکوڑوں کو بھی خوراک کا حصہ بنا کر غذائی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔