عمران خان، گالی سے گولی تک؟

عمران خان، گالی سے گولی تک؟

جو لوگ آزادی اظہار اور بدتہذیبی کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔ جو اختلاف رائے اور بدتمیزی کو مترادف سمجھتے ہیں۔ جو مے خانے اور مسجد میں فرق نہیں کرتے، وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ آزادی اظہار رائے اور بدتمیز ی میں فرق ہوتا ہے۔ بدتمیزی سے اگلا درجہ بے ادبی کا ہے۔ جو واقعہ مدینہ منورہ میں موجود سرکاری وفد کے ساتھ ہوا، اس نے تمام پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ذاتی یا سیاسی اختلاف میں اس قدر بے قابو ہو چکے ہیں کہ روضہ رسولؐ کے مقام کا احترام بھی نہ کر سکیں۔ وہ مقام جہاں قرآن حکیم کی سورۃ حجرات میں اللہ کا حکم ہے کہ یہاں اونچی آواز میں بات کرنا منع ہے۔ اس کائنات میں انبیا کے بعد سب سے معتبر ہستیوں صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو منع فرمایا گیا تو عام امتی کی کیا مجال کہ وہ ایسی گستاخی کا مرتکب ہو۔ اس بلند مرتبہ مقام پر لوگ سسکیوں اور آہوں میں دبے لفظوں سے کملی والے محمدؐ کے حضور اپنی التجائیں پیش کرتے ہیں۔ روضہ رسولؐ پر حاضری قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ہم ایسے بدبخت ہیں کہ سعادت کو شقاوت میں بدل دیا۔ ہم نے پرندوں کو کعبے اور مدینہ میں سراپا احترام پایا ہے۔ بلیوں کو دبے پاؤں ٹہلتے دیکھا اتنا شعور تو اللہ نے انھیں بھی عطا کیا ہے۔ بڑے ہی بد بخت ہیں وہ لوگ جنھوں نے ہلڑ بازی، شور شرابے اور سیاسی نعروں کے لیے اس جگہ کو منتخب کیا جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے ادب احترام سے اترتے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے ہمراہ سرکاری وفد کی روضہ رسولؐ پر حاضری کے دوران جو مناظر سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں۔ ان کے لیے افسوسناک یا شرمناک کے لفظ چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، شاہ زین بگٹی اور مریم اورنگ زیب سمیت دیگر قائدین پر جو جملے کسے گئے، جو گالی گلوچ اور نعرے لگائے گئے۔ وہ یہاں لکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ یقین جانیں یہ باتیں مدینہ تو کیا کہیں بھی نہیں کی جانی چاہئیں۔ روضہ رسولؐ پر ایسی کمینگی کی جرأت تو درکنار سوچنا بھی کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ عمران خان نے سیاست میں مخالفین کے لیے جس زبان کا استعمال شروع کیا۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر نام لے کر بدتہذیبی کے کلچر کو فروغ دیا۔ جو نوجوان عمران خان سے متاثر تھے انھوں نے زبان و بیان کا یہی انداز اختیار کر لیا ہے۔ اب ملک کا سیاسی ماحول اس قدر کشیدہ ہو چکا 
ہے کہ گلی محلے سے لے کر ٹوئٹر اور فیس بک پر لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ پاکستانی معاشرہ جس قدر تقسیم کا شکار آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ عمران خان ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ انھوں پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ انھوں نے اپنے ووٹر سے شائستگی، احترام اور رواداری کا رویہ ختم کر دیا ہے۔ اس کی جگہ عدم رواداری، بدتمیزی اور غیر سنجیدگی کے رویے غالب آ چکے ہیں۔ بقول مریم نواز سیاسی دشمنی میں مسجد نبوی کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ سیاسی دشمنی میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ اللہ کی محبوب ہستی کے تقدس کے بھی لحاظ نہیں کیا گیا۔ مریم نواز نے الزام عائد کیا ہے کہ مسجد نبوی کا واقعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔ ساتھ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ عمران خان ایک فتنہ کا نام ہے اور فتنے کو جتنی جلدی ختم کیا جائے اسی میں ہی پاکستان کا فائدہ ہے۔ منصوبہ بندی کی توثیق سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے اس واقعے سے ایک دن پہلے کے بیان سے ہوتی ہے۔ جس میں انھوں نے باقاعدہ دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ یہ لوگ جب مکہ اور مدینہ جائیں گے تو دیکھیں ان کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس موقع پر مدینہ میں ان کے بھتیجے اور تحریک انصاف کے ایم این اے شیخ راشد کا وہاں موجود ہونا اور اپنے ویڈیو بیان میں کہنا کہ ہم ان کو حرم میں نماز بھی نہیں پڑھنے دیں گے۔ مزید سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرانے دوست اور سابق مشیر صاحبزادہ جہانگیر عرف چیکو کا نعرے بازوں کی حوصلہ افزائی کرنا اس سارے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے کافی ہے۔ اب اس معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ جس کی تصدیق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی کر چکے ہیں۔ سعودی عرب میں کئی گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ مزید سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے شر پسندوں کو شناخت کیا جا رہا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر ایک سال قید اور پانچ لاکھ ریال تک جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی جرم میں ڈی پورٹ ہونے والوں کے لیے پاکستان کی وزارت داخلہ بھرپور کارروائی کی تیاری کر چکی ہے۔ مقدمات اور گرفتاریوں کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس قبیح حرکت کے مرتکب افراد کے لیے دنیا اور آخرت جہنم بننے جا رہی ہے۔ بدنامی کی کالک الگ حصے میں آئے گی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ عمران خان آخر اس ملک کو کہاں لے جا کر چھوڑیں گے۔ ان کے اسی رویے کی وجہ سے ہم سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ اگر اس وقت آئی ایم ایف اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک مدد نہ کریں تو ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی بطور ایڈمنسٹریٹر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا معترف ہے۔ امریکہ اور چین سمیت دوست ممالک کو یقین ہے کہ وہ اپنی گڈ گورننس کے ذریعے جلد صورتحال پر قابو پا لیں گے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سعودی حکومت سے اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر قوم کو خوشخبری دیں گے۔ سعودی حکومت کے ساتھ ساڑھے سات ارب ڈالر کے پیکیج ڈیل پر بات چلی رہی ہے جو عید کے بعد حتمی ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس میں پاکستا ن کے خزانے میں 5 ارب ڈالر کا کیش ڈیپازٹ اور 2 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کا ادھار تیل شامل ہے۔ آئی ایم ایف بھی پاکستان کو 6 کے بجائے8 ارب ڈالر دینے کے لیے رضامند ہے۔ البتہ اس کے لیے حکومت پاکستان کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، تیل کی مصنوعی کم قیمت کو مارکیٹ کے مطابق لانا ہو گا۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔ ملکی معیشت کو واپس درست سمت میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ قوم کو اعتماد میں لے کر جرأت مندانہ فیصلے کیے جائیں۔ عمران خان نے قومی اسمبلی کے بعد پنجاب میں بھی آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جسے لاہور ہائیکورٹ کے مدبرانہ فیصلے نے ممکن نہ ہونے دیا۔ نئے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف حلف اٹھا چکے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ایک بار پھر ترقی کی درست سڑک پر جانے کے لیے تیار ہے۔ اب پنجاب اور ملک ایک سپیڈ سے چلیں گے۔ ایسے میں گورنر پنجاب اور صدر پاکستان کو جمہوریت کی بقا اور استحکام کے لیے کام کرنا چاہئے۔ لیکن عمران خان کا موجودہ رویہ کسی بھی طرح سیاسی استحکام کے حق میں نہیں ہے۔ لوگ دست و گریباں ہو چکے ہیں۔ میریٹ ہوٹل میں گالی گلوچ کا واقعہ ہو یا سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو پڑنے والے تھپڑ۔ اس سیاسی ماحول میں پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں۔ بات تو تکار سے گالی گلوچ اور تھپڑوں تک آ گئی ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ گولی چلنے کا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے اور اس کے ذمہ دار صرف عمران خان ہوں گے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ تاریخ انھیں میر جعفر کے نام سے یاد رکھے۔

مصنف کے بارے میں