ادب گاہ ہیست زیرِآسماںاز عرش نازک تر۔۔۔!

ادب گاہ ہیست زیرِآسماںاز عرش نازک تر۔۔۔!

کلمہ گو مسلمان کی حیثیت سے کون نہیں جانتا ہے کہ مسجد نبویؐ اور روضہ ِ رسولؐ کا کتنا مقام، مرتبہ اور تقدس ہے کہ یہاں حضرت جنید بغدادیؒ اور حضرت بایزید بسطامیؒ جیسے بلند مرتبت اللہ کے نیک بندوں کی زبانیں بھی گنگ ہو جاتی ہیں کہ اُونچا بولتے ہوئے کہیں گنبد خضرا کے مکین رحمۃ اللعالمین حضرت محمدﷺ کے حضور کوئی بے ادبی نہ ہو جائے۔ اللہ کی نورانی مخلوق ملائکہ کے پروں کی آوازیں بھی یہاں مدھم پڑ جاتی ہیں کہ یہ رب کریم کے عرش کے بعد آسماں کے نیچے سب سے بڑھ کر ادب اور احترام کا مقام ہے کہ یہاں اُس پاک ہستی کا روضہ اقدس ہے جس پر اللہ اور اس کے فرشتے بھی مسلسل درود و سلام بھیجتے رہتے ہیں۔ اتنا کچھ جاننے، بوجھنے اور سمجھنے کے بعد بھی اس مقدس اور پاکیزہ مقام کی حرمت، تقدس اور ادب اور احترام میں ہم سے کچھ کمی آ جائے تو پھر ہم سے بڑھ کر بد بخت، بد نصیب اور راندہ درگاہ اور کون ہو سکتا ہے۔ لیکن جب جان بوجھ کر اور ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اور بقائمی ہوش و حواس کے ساتھ یہاں پر ہلڑ بازی اور نعرہ بازی کی جائے جس سے اس مقدس، ارفع اور اعلیٰ مقام کی بے حرمتی اور توہین کا پہلو نکلتا ہو تو پھر بد بختی اور دریدہ دہنی کی اور کیا انتہا ہو سکتی ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ مسجدِ نبویؐ اور اُس میں موجود روضہ رسول ؐ جس کے بلند، پاکیزہ اور ارفع و اعلیٰ مقام کی طرف فارسی کے ایک قادر الکلام شاعر نے اپنے اس خوبصورت اور جامع شعر میں کہہ رکھا ہے۔
ادب گاہ ہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں را
میں ہلڑ بازی اور نعرہ بازی کرتے ہوئے ایک گروہ نے اس کی حرمت اور تقدس کو پامال کیا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ جمعرات کو پاکستانیوں کے ایک گروہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسجد نبویؐ میں روضۃ رسول ؐ کے نواح میں نعرہ بازی اور ہلڑ بازی کر کے روضہ رسولؐ اور مسجد نبویؐ کی بے حرمتی، بے ادبی اور گستاخی کا جہاں ارتکاب کیا ہے وہاں ڈھٹائی، بے حیائی، بے شرمی اور بد بختی کی انتہا کہ اس کی منصوبہ بندی کرنے والے یا اس کے بارے میں پہلے سے جاننے والے خواہ وہ لال حویلی پنڈی کا بقراطِ عصر شیخ رشید احمد ہو یا سابقہ وزیرِ اعظم عمران خان کا مشیر جہانگیر چیکو یا انیل مسرت آف لندن ہو، یا شیخ رشید احمد کا بھتیجا شیخ راشد شفیق ہو کہ وہ مسجد نبویؐ اور روضہ رسولؐ کی بے ادبی اور بے حرمتی میں ملوث ہونے کے بعد یہ کہہ کر اس کا دفاع کر رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کے حکومتی ساتھی چوروں کا ٹولہ ہیں، وہ جہاں بھی جائیں گے لوگ ان کے خلاف چور چور کے نعرے بلند کریں گے۔
شیخ رشید احمد المعروف بقراطِ عصر آف لال حویلی پنڈی جو مسلم لیگ ن کی محدود سوچ اور ویژن اور کم تر اہلیت و قابلیت کی مالک مقامی قیادت (محترمہ مریم اورنگزیب کو یقیناً اس میں استثنیٰ حاصل ہے) کی نا اہلی، نا لائقی، نا اتفاقی اور بے تدبیری کے باعث پنڈی کے باسیوں کے لیے گلے کا چھچھوندر بنا ہوا ہے اس کی ایک دن قبل یہ ویڈیو سامنے آئی کہ مکہ 
مدینہ جائیں گے تو لوگ ان (حکومتی وفد) کے ساتھ جو سلوک کریں گے پتہ چل جائے گا۔ گویا یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ لال حویلی کے بقراطِ عصر کو اندازہ تھا کہ مدینہ منورہ مسجدِ نبوی ؐ میں وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کے وفد کے ارکان کے خلاف ہلڑ بازی اور نعرہ بازی ہو گی۔ اس کا بھتیجا شیخ راشد شفیق جو خود وہاں موجود تھا اور ہلڑ بازی کی ویڈیو بنانے میں مصروف تھا۔ اس کے ساتھ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر صاحبزادہ جہانگیر چیکو، انیل مسرت اور ان کے ساتھی عبدالستار کے اس ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی میں ملوث ہونے کا ثبوت اس امر سے عیاں ہوتا ہے کہ مانچسٹر برطانیہ سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے نام پر یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے، مسجدِ نبویؐ میں ہنگامہ آرائی، ہلڑ بازی اور مسجدِ نبویؐ اور روضہ رسولؐ کے تقدس اور حرمت کو پامال کرنے کی منصوبہ بندی میں عملی حصہ لیا۔ ہلڑ بازی میں شریک ایک فرد نے صاحبزادہ جہانگیر کو دیکھ کر چیکو کا نعرہ بھی بلند کیا اور پھر یہ بھانپ کر کہ سعودی پولیس مسجد نبوی ؐ میں ہلڑ بازی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے والی ہے اور گرفتاری عمل میں آ سکتی ہے تو ایک قومی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات صاحبزادہ جہانگیر چیکو اور انیل مسرت اپنے ایک اور ساتھی عبدالستار کے ہمراہ خاموشی سے سعودی عرب سے نکل گئے کہ کہیں سعودی پولیس کے ہاتھوں دھر نہ لیے جائیں۔
مسجد نبویؐ اور روضہ رسول ؐ پر حاضری کے وقت کیا طرزِ عمل اختیار کیا جانا چاہیے اور کس لہجے میں اور کتنی اُونچی آواز میں گفتگو یا درود و سلام پیش کرنا چاہیے اس کے لیے واضح راہنمائی اللہ کے پاک کلام کی سورۃ الحجرات کی ان آیات میں موجود ہے جو روضہ رسولؐ کی سنہری جالیوں کے اوپر جلی حروف میں لکھی ہوئی ہیں (ترجمہ)’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ ہی اُن سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔‘‘ اب  اگر سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے عقیدت رکھنے والے ان کے متوالوں اور جیالوں کے ایک گروہ نے ان آیاتِ مقدسہ میں دی گئی واضح ہدایات سے روگردانی کرتے ہوئے ہلڑ بازی اور نعرہ بازی کا ارتکاب کیا ہے تو ان کی بد بختی اور نامہ اعمال کی سیاہی کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے؟ لیکن بے شرمی، بے حیائی اور ڈھٹائی کی انتہا دیکھئے کہ جو قابل نفریں عمل ہوا اس پر اظہار ندامت اور تاسف کرنے اور بارگاہِ خداوندی میں معافی مانگنے کے بجائے اس کے لیے اُلٹے سیدھے جواز اور تاویلیں گھڑی جا رہی ہیں۔
یہ حقیقت سمجھنے اور ذہن میں بٹھانے کی ہے کہ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے جب بات حد سے تجاوز کر جائے اور ساری حدیں پھلانگ لی جائیں تو پھر اگلا مرحلہ پھٹکار پڑنے کا آتا ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو ملکی آئین و قانون کے تحت انھیں اس کا حق حاصل تھا جناب عمران خان  کو چاہیے تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی آئینی اور قانونی طریقوں کے تحت اس کا مقابلہ کرتے یا اسے ناکام بناتے۔ اس کے بجائے عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے غیر قانونی اور غیر آئینی لائحہ عمل ہی اختیار نہ کیا بلکہ ریاستی اداروں کو انتہائی قابلِ نفریں انداز میں ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔ جوں جوں عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا شروع ہوا کو وہ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں اور اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد نوشتہ دیوار ہے تو ان کے غصے اور مخالفین کے خلاف ان کے دل میں نفرت، ضد اور انتقام کے جذبات بھی زور پکڑتے گئے انہوں نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش کا شاخسانہ قرار دیا تو اس کے ساتھ اس کو زیرِ التوا رکھنے کے لیے ہر طرح کے تاخیری حربے اور غیر قانونی اور غیر آئینی ہتھکنڈر بھی استعمال کیے۔ لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے، ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہوئی، عمران خان کو وزیرِ اعظم ہاؤس خالی کرنا پڑا تو انہوں نے چند ماہ قبل جو دھمکی تھی کہ میں حکومت سے نکلا یا مجھے نکالا گیا تو زیادہ خطرناک ہو جاؤنگا تو اس کا عملی ثبوت بہم پہنچانا شروع کر دیا۔ اب وہ ہر کسی کو اپنے انتقام کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس کا نشانہ کون بن رہا ہے۔ پاکستان، اس کی سلامتی اور تحفظ، ریاستی ادارے اور ان کا وقار، مخالفین سبھی انکی بندوق کے نشانے پر ہیں۔ اپنے حامیوں، پیروکاروں، اپنے یمین و یسار اور معتقدین و متوسلین سبھی کو وہ ورغلاتے چلے جا رہے ہیں۔ آخر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، آخری حدیں پھلانگتے ہوئے ان کے معتقدین و متوسلین کو یہ بھی خیال نہیں رہا کہ وہ کس مقدس جگہ اور ارفع و اعلیٰ مقام پر ہلڑ بازی، شور شرابہ اور نعرہ بازی کر کے کتنی بڑی حماقت، گستاخی، بے ادبی اور بد بختی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ روضہ رسول ؐاور مسجد نبویؐ جیسے مقدس مقامات کی بے حرمتی اور تقدس کی پامالی کے مرتکب ٹھہرے ہیں تو ملک بھر میں انھیں فرزندانِ توحید کی طرف سے سخت لعن طعن اور مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ ہم اس گستاخی اور بے ادبی پر اللہ کریم کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگیں، اے پروردگارِ عالم ہمیں معاف فرما دے اور جنہوں نے اس بے حرمتی  اور بے ادبی کا ارتکاب کیا ہے انہیں ہدایت عنایت فرما۔ معافی، معافی اور معافی یا رب العالمین۔

مصنف کے بارے میں