اعظم سواتی کو افسوس ہے تو اپنے عہدے سے استعفی دیں، چیف جسٹس

اعظم سواتی کو افسوس ہے تو اپنے عہدے سے استعفی دیں، چیف جسٹس
کیپشن: عدالت سے استدعا ہے تبادلے کے احکامات پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے، جان محمد۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

اسلام آباد: انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد جان محمد نے اپنے عہدے پر کام کرنے سے معذرت کر لی جس کے بعد سپریم کورٹ نے آئی جی کے تبادلے کی معطلی کا حکم واپس لے لیا۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے جب کہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی، متاثرہ خاندان، اٹارنی جنرل اور آئی جی اسلام آباد کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو آئی جی اسلام آباد جان محمد نے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان حالات میں کام نہیں کر سکتے اس لیے عدالت سے استدعا ہے تبادلے کے احکامات پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے۔

اس موقع پر متاثرہ خاندان کے سربراہ نیاز محمد نے عدالت کو بتایا کہ ہماری صلح ہوگئی ہے اور غریب آدمی ہوں۔ ملک کی عزت خراب نہیں کر سکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں ملک کی عزت کی خرابی کا کوئی معاملہ نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ خاندان نے بے شک معاف کر دیا ہو  اور  یہ اسٹیٹ کے خلاف جرم ہے جبکہ معاملے کی انکوائری کروائیں گےاور ایسا فعل ایک طاقتور وزیر نے کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا جرگے میں ہونے والی صلح صفائی کو نہیں مانتے اور وڈا  آدمی ہے۔ غریباں نوں پکڑوا لیا، مار وی پوائی، جیل وی بھجوایا تے فیر آئی جی وی تبدیل کرا دتا۔

اعظم سواتی کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے جن سے مکالمے کے بعد چیف جسٹس نے کہا آپ ہر بڑے بندے کے وکیل بن جاتے ہیں۔ میں آپ کا لائسنس کینسل کرتا ہوں اور بتائیں کتنے عرصے کے لیے لائسنس کینسل کروں۔

بیرسٹر علی ظفر نے مسکراتے ہوئے کہا دو ماہ کے لیے کینسل کر دیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ہر ناجائز کام کرنے والے کی طرف سے آپ پیش ہو جاتے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا اعظم سواتی صاحب کو اپنے کیے پر بہت افسوس ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر انہیں افسوس ہے تو عہدے کو چھوڑ دیں۔ عہدے کی طاقت سے اعظم سواتی نے یہ کام کیا، غریب خاندان پر ظلم کرنے کے بعد پیسے دے کر صلح کر لی اور اب انہیں افسوس بھی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم معاملے پر ایف آئی اے، نیب اور آئی بی کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنائیں گے۔ اٹارنی جنرل صاحب آج ہی نام دیے جائیں ہم خود افسران منتخب کریں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا اعظم سواتی کی صلح ہو چکی ہے اور اسلامی قوانین کے مطابق ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اسلامی قوانین اللہ کا تحفہ ہیں جہاں پر آپ پھنس جاتے ہیں وہاں آپ اسلامی قوانین کو لے آتے ہیں۔ اسلامی اصول یہ بھی ہے کہ اگر انہیں افسوس ہے تو اپنے عہدے سے استعفی دیں۔ کسی وزیر کو اس طرح غریب خاندان کو کچلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے متاثرہ بچے سے واقعے کی تفصیل سنی اور کہا کہ یہ مس کنڈکٹ کا کیس ہے۔ عدالتیں کمزور یا ماڑی نہیں ہیں اور کیا یہ وزیر اس ملک کے مالک ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کیس میں آئی ایس آئی کو نہیں ڈالنا چاہتا دیگر متعلقہ اداروں سے انکوائری کرائیں گے۔

چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو حکم دیا کہ جھگڑے کے واقعے کی تحقیق کریں اور جو مقدمہ بنتا ہے درج کریں جبکہ مجھے یہ آج ہی چاہیے۔ وزیر کے ساتھ وہی سلوک کریں جو عام آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی آپ نے ایک خاندان کی روزی بند کردی، یہ ہے آپ کی دیانت داری، کہتے ہیں تو ابھی 62 ون ایف لگا دیتے ہیں۔