ایک شٹ اَپ کال کا سوال ہے عالیجاہ

ایک شٹ اَپ کال کا سوال ہے عالیجاہ

اپنے پیارے وطن میں سیاسی جلسے جلوس احتجاج کرنے والے لیڈروں کے لیے سیاسی آکسیجن ہوتے ہیں جبکہ مخالفین کے لیے سیاسی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتے ہیں۔ عوام، حکومت اور اپوزیشن کی اس کھینچا تانی میں پریشان پھنسے رہتے ہیں۔ جب دونوں سیاسی برجوں کے معاملات کسی نتیجے پر نہ پہنچ رہے ہوں اور عوام تنگ سے تنگ ہوتے جارہے ہوں تو کوئی درمیان میں داخل ہوتا ہے۔ اِس انٹری سے سیاسی آندھیاں وقتی طور پر رک جاتی ہیں اور عوام کو سکون ملتا ہے۔ مثلاً جب آئی آئی چندریگر کی اپنی حکومت پر گرفت کمزور ہوئی تو وہ اور ان کی کابینہ مستعفی ہوگئی۔ تب ریپبلکن پارٹی، عوامی لیگ اور جنتا لیگ کی مدد سے فیروز خان نون نے حکومت سنبھالی۔ صدر سکندر مرزا کو خطرہ محسوس ہوا کہ حسین شہید سہروردی اور فیروز خان نون آپس میں ملے ہوئے ہیں کیونکہ یہ دونوں اگلے عام انتخابات میں صدر اور وزیراعظم بننے کی تحریک چلا رہے تھے۔ دوسری طرف عبدالقیوم خان کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ بھی زور پکڑتی جارہی تھی۔ یہ تحریکیں اور احتجاج صدر سکندر مرزا کے خلاف جارہے تھے لہٰذا سات اور آٹھ اکتوبر 1958ء کی درمیانی شب صدر سکندر مرزا نے 1956ء کا آئین منسوخ کردیا۔ جنرل ایوب خان کی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے تقرری کو منظور کیا۔ صدر سکندر مرزا کے ان اقدامات سے سیاسی اور خفیہ معاملات بہتر ہونے کی بجائے مزید سازشوں کا شکار ہوتے گئے۔ ٹھیک 15 دن بعد 27 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان کی صورت میں ایک انٹری ہوئی جس سے صدر سکندر مرزا کی چھٹی ہوگئی۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ پاکستان میں 1969ء کو سیاسی افراتفری بے حد بڑھ گئی۔ ایک طرف مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو بھرپور تحریک چلا رہے تھے تو دوسری طرف مشرقی پاکستان میں بنگالی لیڈر اور عوامی لیگ آتش فشاں بن رہے تھے۔ 24 مارچ 1969ء کو فوجی صدر ایوب خان نے اپنے کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو انٹرکام پر کال کی لیکن جنرل یحییٰ خان نے کال وصول نہ کی۔ صدر ایوب خان کو فوری احساس ہوگیا کہ معاملہ ختم ہوچکا ہے۔ اُسی دن صدر ایوب خان نے جنرل یحییٰ خان کو خط لکھا کہ ”سیاسی معاملات بہت خراب ہیں اس لیے ملک میں مارشل لاء لگا دیا جائے“۔ جنرل یحییٰ خان نے 25 مارچ 1969ء کو اپنی مکمل انٹری دی اور ایوب خان کو ہٹاکر خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن گئے۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک تمام حدیں پار کرگئی تو 5جولائی 1977ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران جب سیاسی بے چینی عروج پر پہنچی تو اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے 6اگست 1990ء کو حکومت برخواست کردی۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ نواز شریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران سیاسی افراتفری اور مخالفین کے جوڑتوڑ حکومتی ڈھانچے کو ہلانے لگے تو صدر غلام اسحاق خان نے اُن کی حکومت بھی ختم کردی۔ نواز شریف عدالت میں چلے گئے اور وزیراعظم کے طور پر بحال ہوکر واپس آگئے۔ اُن کی بحالی نے سیاسی انتشار میں کوئی کمی نہیں کی جس کے سبب 18 جولائی 1993ء کو صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف دونوں اکٹھے مستعفی ہوگئے۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ بینظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آئیں مگر سیاسی بھنور میں پھنستی چلی گئیں۔ اپوزیشن اور صدر سے اختلافات بڑھتے گئے۔ لوگ پریشان اور بے چین ہوتے گئے۔ بینظیر بھٹو کو آدم بو کا احساس ہوا تو انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کو فون کیا اور کہا ”میں کیا سن رہی ہوں؟“ جنرل جہانگیر کرامت نے جواب دیا ”یس میڈم، ٹائم اِز اُوور ناؤ“۔ اُسی دن یعنی 5نومبر 1996ء کو اُن کی اپنی پارٹی کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت کی چھٹی کردی۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو صدر فاروق احمد خان لغاری سے الجھتے چلے گئے۔ ایوانِ وزیراعظم اور ایوانِ صدر کی تلخیاں ملک پر اثرانداز ہونے لگیں۔ اس مرتبہ نواز شریف کا پلڑا بھاری رہا۔ کسی نے مداخلت کی اور صدر فاروق احمد خان لغاری 2دسمبر 1997ء کو مستعفی ہوگئے۔ وزیراعظم نواز شریف ابھی صرف تقریباً دو سال ہی چلے تھے کہ فوج سے ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں 12 اکتوبر 1999ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے ملک کا انتظام سنبھالا اور سول حکومت کو رخصت کیا۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد فوجی صدر جنر ل پرویزمشرف قابل قبول نہیں رہے تھے۔ جمہوریت اور سیاست انہیں نکال پھینکنا چاہتی تھی۔ لوگوں کے ردعمل کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے منتخب حکومت کے ساتھ دانشمندانہ سودے بازی کی جس کی مبینہ بین الاقوامی گارنٹی امریکہ اور سعودی عرب نے دی۔ وہ 18 اگست 2008ء کو مستعفی ہوئے۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت نے جب جنرل پرویز مشرف کی طرف سے نکالے گئے ججوں کو بحال کرنے میں ٹال مٹول کیا تو نواز شریف ججوں کی بحالی کے لیے 15 مارچ 2009ء کو لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے لگے۔ وہ ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچے تھے کہ ایک ٹیلیفون کال نے اُن کا راستہ روک لیا۔ فون کال کے بعد نوازشریف نے وہیں ججوں کی بحالی کی خبر سنائی اور لانگ مارچ ختم کردیا۔ سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آگیا۔ عوام سکون میں آگئے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سیاسی افراتفری پھیل جاتی ہے۔ معاملات آمنے سامنے ٹکراؤ کی طرف بڑھتے ہیں تو کوئی خود آجاتا ہے یا کسی کی شٹ اَپ کال آجاتی ہے۔ گتھم گتھا سیاسی ٹریفک رواں ہو جاتی ہے۔ یہ ایک علیحدہ تجزیہ ہے کہ وقفے وقفے سے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کیوں ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ تیسرے فریق کی مداخلت سے ہی معاملات روٹین میں آتے ہیں۔ اِن دنوں پاکستان اپنی تاریخ کی بدترین سیاسی انارکی میں داخل ہوچکا ہے۔ حکومت اور عمران خان میں سے کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کسی ٹیکنیکل شق کا سہارا لے کر کوئی خود آتا ہے یا شٹ اَپ کال آتی ہے تاکہ تھوڑے وقفے کے لیے سیاسی انتشار میں ٹھہراؤ آئے اور عوام سکون میں آجائیں۔

مصنف کے بارے میں