حکومتی دعوے اور معاشی بدحالی

حکومتی دعوے اور معاشی بدحالی

وزارتِ خزانہ کی طرف سے جاری ہونے والی ماہانہ اقتصادی جائزہ رپورٹ میں روپیہ تگڑاہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے مہنگائی کم ہونے اور معیشت میں بہتری نظر آنے کی نوید سنائی گئی ہے لیکن کیا عملی طور پر بھی ایسا ہی ہے غیر جانبدار ذرائع حکومتی دعوؤں کی تصدیق نہیں کرتے ٹیکس ریونیو میں سترہ فیصد اضافہ جھٹلایا نہیں جا سکتا لیکن اِس کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بہتری کا رجحان نہیں اسی طرح ضروری اشیاکی بروقت فراہمی نہ ہونے سے سپلائی لائن بھی ہنوز غیر مستحکم ہے علاوہ ازیں ترسیلاتِ زر میں 6.3فیصد کمی آ چکی ہے مالی خسارہ 45.4فیصد بڑھ کر672ارب ہو گیا ہے اسی طرح براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 47.1تک کمی آچکی ہے جس طرح رپورٹ میں روپیہ تگڑاہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ترسیلاتِ زراور سرمایہ کاری میں کمی کا اعتراف کیا گیا ہے اِس کے تناظر میں موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد معیشت میں بہتری آنے کے دعوؤں کو تسلیم کرنامحال ہے بلکہ ابھی تک ملکی معیشت کو مسلسل چیلنجزکا سامنا ہے روپے کی قدر میں بہتری کو مہنگائی میں کمی قرار دینے کو ماہرین تسلیم کرنے تذبذب کا شکار ہیں بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ روپے کو مضبوط کرنا یہ عارضی بندوبست ہے اور یہ سب کچھ دراصل نئے بیرونی قرض کا مرہونِ منت ہے کیونکہ زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کا رجحان ہے اگر بیرونی برآمدات میں اضافہ نہیں کیا جاتا یا درآمدات میں کمی نہیں لائی جاتی توملک رواں برس کے اختتام تک اربوں ڈالر کی ادائیگی سے قاصر ہو سکتا ہے ابھی تو چند ممالک نے سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے قرض اقساط کی ادائیگی میں چھوٹ دے دی ہے لیکن یہ تصورکر لینا کہ اب حالات ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے؟غلط ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر اِس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تمام حکومتوں نے زرعی شعبے کو نظر انداز کرتے ہوئے صنعتیں قائم کرنے پر توجہ مرکوز رکھی صنعتوں کی بھی اپنی اہمیت ہے مگر صنعتوں کے ساتھ اگر زرعی شعبے کو نظر انداز نہ کیا جاتا تو آج نہ صرف ملک خوراک کے حوالے سے خود کفیل ہوتا بلکہ برآمدات میں بھی موجودہ حد تک کمی نہ آتی لیکن اب حالات اِس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ملک میں صنعتیں تو ہیں لیکن خام مال میسر نہیں جس کی وجہ سے صنعتی پیداوار نہ صرف متاثر ہورہی ہے بلکہ خام مال کی درآمد پر اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے ٹیکسٹائل ملوں کے لیے روئی تک درآمد کی جارہی ہے یہ غلط پالیسیوں اور ترجیحات کے نتائج ہیں جنھوں نے ملک کو معاشی لحاظ سے اِس حد تک لاغر کردیا ہے کہ اب قرضوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو گئی ہے اگر قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنی ہے تو آمدن کے ذرائع بڑھانا ہوں گے جس کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے مگر حکومتی ترجیحات اور اطوار پر طائرانہ نگاہ دوڑائیں تو تبدیلی کے موہوم سے آثاربھی نظر نہیں آتے اب بھی قرضے لیکر غیر پیداواری شعبوں پر لگا نے اور ملک کو قرضوں کی دلدل میں مزید دھکیلنے کا عمل جاری ہے علاوہ ازیں معاشی حالت کی خرابی کے باوجود ایسی غیر ضروری اشیا کی بلاروک ٹوک درآمد جاری ہے جن کے بغیرگزارہ ممکن ہے اگر حکومت زرعی رقبہ بڑھانے پر توجہ دیکر غیر ضروری اشیا کی درآمد روک دے تو بڑھتے خسارے پرباآسانی قابو پایا جا سکتا ہے وزیرِ اعظم نے 1800 ارب کے کسان پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کھاد اور بجلی کی قیمتیں کم کی ہیں لیکن اِس سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے ابھی تک زرعی رقبے میں آتی کمی کو روکنے کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی بلکہ ہر حکومت کی طرح اب بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ منہ پر آئی سوجن کو میک اَپ سے چُھپایا جائے 
اسی بناکبھی کسی پیکیج سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے موجودہ کسان پیکیج سے بھی اچھی امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سیاسی ضرورتوں کے لیے اعلانات تو کر دیے جاتے ہیں مگر اعلانات پر عمل درآمد کی نوبت کم ہی آتی ہے دوسری یہ کہ کسانوں کے لیے کھاداور بجلی مہنگی ہونے کی بناپر کاشتکاری نفع بخش نہیں رہی علاوہ ازیں فصل تیار ہونے پر تمام فوائد مافیاز لے جاتے ہیں انھی وجوہات کی وجہ سے کسان بددل ہو کر دیگر شعبوں کی طرف جانے لگے ہیں اسی وجہ سے سیلاب یا موسمی حالات کو ذمہ دارٹھہرائیں ملک خوراک میں خود کفالت کی منزل کھونے کے بعد اب بھوک و افلاس کی طرف جانے لگا ہے۔
حکومت بار باردعوے کررہی ہے کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے شب و روز مصروف ہے اور یہ کہ 
مہنگائی اور بے روزگاری کم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے مگر سیاسی عدمِ استحکام نے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کررکھا ہے کیونکہ سیاسی عدمِ استحکام سے پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا رواں برس بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی ملکی ریونیو کے پچاس فیصد ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے جو ملکی معیشت کی عالمی درجہ بندی کرنے والی امریکی ریٹنگ ایجنسی moody sموڈیز کی طرف سے طے کردہ قرضوں کی حد سے دوگنا ہے جس کی وجہ سے ماہرین کی نظر میں پاکستان کا ڈیفالٹ رسک 53فیصد ہو نے کا اندیشہ ہے چند عالمی اِداروں سے نئے قرض کا اجرا یا پھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کی اپیل پر 816ملین ڈالر کی امدادملنے سے وقتی طور پر بیرونی ادائیگیوں میں تو مدد مل سکتی ہے لیکن اِسے معاشی بحالی ہر گز نہیں کہہ سکتے معاشی بحالی یہ ہو گی کہ منفی سے معیشت کومستحکم ریٹنگ پر لایا جائے اِس کے لیے لازم ہے کہ عارضی سہاروں پر تکیہ کرنے کے بجائے معاشی بحالی کے لیے ٹھوس اور نتیجہ خیز طریقہ کار بناکر عمل بھی کیا جائے۔
دنیا میں موڈیز، سٹینڈرز اینڈ پوورز اور فچ تین بڑی ریٹنگ ایجنسیاں ہیں جو قرضوں سے لیکر سرمایہ کاری کے لیے ملکوں کی ریٹنگ طے کرتی ہیں یہ ایجنسیاں معیشتوں کو لاحق خطرات کی روشنی میں ملکوں کی ریٹنگ کا تعین کرتی ہیں اگر کسی ریاست کی ریٹنگ مستحکم کے بجائے منفی ہو تو اُسے یا تو قرضے دیے ہی نہیں جاتے اگر دیے جائیں تو انتہائی سخت شرائط کے ساتھ مہنگے دیے جاتے ہیں جن کی ریٹنگ بہتر یعنیaaa ہو انھیں وعدے پورے کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوناجان کر قرض دینے والے عالمی اِدارے نرم شرائط کے ساتھ بھی بخوشی قرض جاری کر دیتے ہیں سیاسی عدمِ استحکام،زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بڑھتے بیرونی قرضوں کی وجہ سے تینوں ریٹنگ طے کرنے والی ایجنسیاں متفق ہیں کہ پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے گزشتہ ماہ سات اکتوبرکوموڈیز جبکہ فچ نے 21 اکتوبرکو پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کرتے ہوئے اُسے منفی کر دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ملکی معیشت کولاحق خطرات میں کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا ہے خطرات میں کمی لانے اور معیشت کی بحالی کے لیے عوام کی نظریں حکومت پر ہیں۔

مصنف کے بارے میں