”نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی“

Ch Farrukh Shahzad, Daily Nai Baat, e-paper, Pakistan, Lahore

سیاست اور معیشت میں اندازے ہمیشہ غلط ثابت ہوتے ہیں۔ ہم یہاں دو اندازوں کا بالخصوص ذکر کریں گے امریکہ کا اندازہ تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد طالبان کو اشرف غنی حکومت کے خاتمے اور پورے ملک پر قبضہ کرنے میں 6 ماہ کا عرصہ لگے گا مگر امریکی انخلا سے پہلے ہی طالبان نے نہ صرف وہاں قبضہ کر لیا بلکہ افغان سکیورٹی فورسز بغیر مزاحمت کیے طالبان کے سامنے سر تسلیم خم کر گئیں اور اشرف غنی کو فرار ہونا پڑا۔ اسی طرح دوسری طرف عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی Fitch Rating نے پاکستانی معیشت خصوصاً پاکستانی کرنسی کے بارے میں اپنی پیشہ ورانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں 2021ء میں ڈالر کی شرح مبادلہ 165 روپے تک رہے گی مگر سال کی ابھی ایک سہ ماہی باقی ہے اور ڈالر مارکیٹ میں 172 پر پہنچ چکا ہے۔ ایجنسی سر پکڑ کے بیٹھ گئی ہے اور اپنی خفت چھپانے کے لیے 2022ء کی ڈالر کی قیمت 180 روپے فی ڈالر تو محض ہفتوں کی بات ہے بلکہ نیا سال تو ابھی دور ہے۔ 
بظاہر ان دونوں واقعات کا ایک دوسرے سے تعلق دکھائی نہیں دیتا مگر امر واقع یہ ہے کہ حقیقت وہی ہے جو دکھائی نہیں دے رہی۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان پر مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور آنے والے وقت میں اس کی شدت بڑھنے کے آثار واضح ہیں۔ صدر بائیڈن کے وزیراعظم عمران خان کو فون نہ کرنے کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا ہے اور شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ جس کے لیے ٹارگٹ سیٹ کر لیے گئے ہیں جس میں پہلے نمبر پر پاکستان کو اقتصادی طور پر غیر مستحکم کرنا ہے۔ پاکستان کی رگ جاں پنجہئ آئی ایم ایف میں ہے اور یہ وہ ادارہ ہے جسے سب سے زیادہ فنڈز امریکہ سے ملتے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ آئی ایم ایف کو ڈکٹیٹ کرانے کی پوزیشن میں ہے کہ کس مقروض ملک کے ساتھ کیسے ڈیل کرنا ہے جبکہ اس وقت زمینی صورت حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا جتنا دباؤ پاکستان حکومت پر ہے پہلے کبھی نہ تھا ماضی کی کوئی حکومت بھی اس عالمی ادارے کے آگے اتنی Humble یا تابعدار نہیں تھی۔ 
پاکستان سے غلطی یہ ہو رہی ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر سیاست اور معیشت کو الگ الگ رکھ کر سوچ جاتا ہے اور فیصلے کیے جاتے ہیں حالانکہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے بہت گہرا اور اٹوٹ انگ والا رشتہ ہے جب تک یہ بات سمجھ نہیں آئے گی معاملات مزید کنفیوژن کا شکار ہوں گے۔ ہمیں اب بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ جیسے ہی امریکی سینیٹ میں طالبان اور پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کا بل پیش ہوا اس سے اگلے ہی روز پاکستان کے سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس میں 1200 پوائنٹس کی کمی آ گئی اور ساتھ ہی 
ڈالر نے 170 روپے کا بنچ مارک عبور کر لیا۔ 
پاکستان میں جو لوگ طالبان کی فتح پر خوش ہو رہے تھے اب ان کے لیے پریشانی کا وقت ہے کیونکہ امریکہ اس شکست کو بھول نہیں سکتا اور اسے طالبان سے زیادہ غصہ طالبان کے حمایتیوں پر ہے کیونکہ 2001ء سے امریکہ میں ہر حکومت میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ پاکستان اس جنگ میں ڈبل رول ادا کر رہا ہے موجودہ صدر بائیڈن گزشتہ 40 سال سے پاکستان کے ساتھ ڈیل کر رہے ہیں اور معاملات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ پاکستان پر الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ اس نے کابل میں ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت گرانے کے لیے طالبان کی مدد کی ہے جس کی پاکستان نے ہمیشہ تردید کی ہے۔ دوسری طرف پاکستان انٹیلی جنس چیف جنرل فیض حمد کے دورہئ کابل کے بارے میں جو سٹوری امریکہ میں چل رہی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت سازی کے مرحلے پر پاکستان نے طالبان کی اندرونی صف میں گھس کر ایسے فیصلے کرائے جس سے ملا عبدالغنی برادر جیسے پختہ کار سیاستدان کو سائیڈ لائن کر کے حقانی گروپ سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ 
بدھ کے روز امریکی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے 22 سینیٹرز کی جانب سے ایک بل پیش کیا گیا جس کا نام Afghanistqan Counter Terrorism, oversight & Accountability Act رکھا گیا ہے۔ یہ ایک مسودہ قانون ہے جس میں طالبان اور ان کی حمایت کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں طالبان کے علاوہ صرف ایک ملک کا نام لیا گیا ہے اور وہ پاکستان ہے اس میں امریکی وزیر خارجہ کو کہا گیا ہے کہ وہ 2020-2021ء کے عرصہ میں پاکستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات کی جائزہ رپورٹ پیش کرے اور پنج شیر میں طالبان حملے میں پاکستان کے کردار پر بھی روشنی ڈالے (پاکستان نے روز اول سے ہی اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے)۔ 
بل میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن حکومت نے نہایت پر خطر انداز سے وہاں سے انخلا کیا۔ اس بل میں دہشت گردی سے نپٹنے، امریکی ہتھیاروں اور گاڑیوں کے طالبان کے قبضے میں آجانے کے بعد ان کی واپسی کے لیے لائحہ عمل، نارکوٹکس سمگلنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے موضوعات شامل ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بھی طالبان کو اقوام متحدہ میں سفیر بنا کر بھیجنے کی مخالفت کی جائے گی یاد رہے کہ مذکورہ سفیر کے لیے ویزا امریکی حکومت نے جاری کرنا ہے۔ اس بل میں طالبان کے ساتھ روس اور چین کے ایشیا میں کردار سے پیدا ہونے والے خطرات اور ان کے مقابلے میں انڈیا کو مستحکم کرنے کا ذکر بھی موجود ہے۔ گویا صاف ظاہر ہے کہ کس طرح اس میں پاکستان کو نشانہ بنانے اور انڈیا کو نوازنے کا ایک سوچا سمجھا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی نے افغانستان میں شکست پر انکوائری کے لیے ذمہ داروں کو طلب کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں چیئرمین چوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کی مخالفت کی تھی۔ اس پیشی کے دوران جب ان سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کیا کیونکہ یہ بیان پبلک تھا۔ جنرل لی نے کہا کہ اس کے لیے ان کیمرہ کارروائی کی جائے تو وہ بات کریں گے۔ یہ سارے معاملات کس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں ان حالات میں طالبان سے متعلق پاکستان کو پالیسی Review کرنا ہو گی اور فاصلہ رکھنا ہو گا طالبان کی وجہ سے پاکستان معاشی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حفیظ جون پوری نے شاید اسی موقع کے لیے محتاط رہنے کا مشورہ دیا تھا۔
حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی