سٹرٹیجک کامیابی، خارجہ پالیسی اور معیشت کی ناکامیاں

سٹرٹیجک کامیابی، خارجہ پالیسی اور معیشت کی ناکامیاں

گزشتہ سوموار 30 اگست کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے ایک روز پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارلیمنٹ کی کشمیر اور دفاعی کمیٹیوں کے ارکان کو جن میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے ارکان کو نمائندگی حاصل تھی جی ایچ کیو میں منعقدہ اجلاس میں بریفنگ کے موقع پر مختلف سوالوں کا جواب دیا…… واضح الفاظ میں کہا کہ چیلنجز کے باوجود سرحدیں محفوظ ہیں …… کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں …… خطے کی ترقی کے لیے افغان امن اہم ہے…… بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں تھا…… محض پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے وہاں گیا اور یہ کہ تنازع کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر خطے میں حقیقی امن کا قیام ممکن نہیں ……  ملک و قوم کی سلامتی کو درپیش ہر اہم موڑ پر پارلیمنٹ کے نمائندوں کو اعتماد میں لینا قابل تحسین روایت ہے۔ اس سے قبل یکم جولائی کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر اس نوعیت کی بریفنگ کا اہتمام کیا گیا تھا…… اس میں بھی آرمی چیف نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پارلیمنٹ کے اراکین کے سوالوں کا جواب دیا…… اس مرتبہ ان نمائندگان کو جی ایچ کیو میں بلایا گیا…… بہتر ہوتا اس بار بھی آرمی چیف اور ان کے ساتھی چل کر پارلیمنٹ ہاؤس میں آتے کیونکہ جی ایچ کیو بہرصورت آئینی لحاظ سے ایک ماتحت ادارے کا صدر مقام ہے جبکہ پارلیمنٹ ہاؤس ملک کے اصل حاکموں یعنی قوم کے منتخب نمائندوں کی جانب سے اہم مباحث اور فیصلہ سازی کا مرکز …… اس کی بالادست حیثیت کو ہر عالم میں اور ہر طرح کے حالات کے اندر تسلیم کیا جانا چاہئے…… اصولی طور پر اور عملی لحاظ سے بھی…… یہ ملک کے اقتدار اعلیٰ کی علامت ہے جس کا ہر لحاظ سے پاس و لحاظ ہونا ازبس ضروری ہے……یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا جو بیچ مقطع کے آ گیا تاہم آرمی چیف کے خیالات کی اصابت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری شمال مغربی سرحد پر قائم ملک افغانستان میں حالات نے جو تاریخی پلٹا کھایا ہے ان میں پاکستان کی سرحدیں بالکل محفوظ ہیں …… انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں …… ہماری بہادر اور دفاع وطن کی خاطر ہر دم مستعد اور چاک و چوبند رہنے والی فوج اپنے وطن کی آن اور سلامتی  پر جانیں نثار کرنے والے سرفروش سپاہی اور افسران اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کسی لمحے غافل رہنے والے نہیں …… افغانستان 2600 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد پر واقع ایسا ہمسایہ ملک ہے جہاں امن کا قیام اور حالات کا مستحکم رہنا پاکستان میں بھی امن و استحکام کی صورت حال کو یقینی بنانے کے لیے ازحد ضروری ہے…… اس سے بھی اہم بات آرمی چیف نے یہ کہی ہے کہ تنازع کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر خطے میں پائیدار امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی اور زیادہ اہم جس نکتے کی جانب انہوں نے توجہ دلائی وہ یہ ہے کہ بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں تھا وہ محض پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے وہاں گیا…… حق یہ ہے کہ امریکی فوجی قبضے کے بیس برسوں کے دوران بھارت نے وہاں جو بھاری سرمایہ کاری کی…… پاکستان کے ساتھ ملنے والی افغان سرحد پر اپنے قونصلیٹ قائم کیے…… ان سب کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال عدم استحکام سے دوچار رہے اور بھارت اپنے قونصل خانوں اور دیگر خفیہ مراکز کے ذریعے پاکستان میں دہشت گرد عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا رہے ایسا عملاً ہوتا بھی رہا…… خاص طور پر بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کو ہوا دینے کی خاطر افغانستان کی سرزمین کو خوب استعمال کیا گیا ورنہ بھارت کی کوئی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی نہ اس کے افغان عوام کے ساتھ اس نوعیت کے مذہبی تہذیبی اور تاریخی تعلقات ہیں جو پاکستان کا خاصہ ہیں …… اب جو امریکی افواج کا انخلا عمل میں آیا ہے اور طالبان کی پاکستان دوست حکومت وہاں بڑی کامیابی کے ساتھ قدم جما رہی ہے تو اس پیش رفت کی وجہ سے بھارت کو سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے…… اس کے پاکستان کے خلاف عزائم کو بری طرح زد پہنچی ہے…… اس نے مقبوضہ کشمیر کو جس غاصبانہ انداز میں اپنے اندر ضم کرنے کی مذموم کوشش کی ہے اس لحاظ سے بھی اس کے پاؤں اکھڑ سکتے ہیں اگر افغانستان میں حالات کو صحیح معنوں میں استحکام مل جاتا ہے …… لہٰذا  پاکستان کو جوں جوں سٹرٹیجک کامیابی ملتی جائے گی بھارت ایک زخمی سانپ کی طرح پھنکارے گا…… ہمیں اس پہلو سے بھی بہت زیادہ خبردار اور چوکنا رہنا ہوگا……
پاکستان کی فوج نے شمال مغربی سرحد اور اس حوالے سے بھارت کے عزائم کو چکنا چور کر کے رکھ دینے کے لیے جس مستعدی کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دیئے اور اس کے جو نتائج سامنے آ رہے ہیں ان کے بارے میں دو رائے  نہیں پائی جاتیں …… ایک دنیا ان کی معترف ہے…… تاہم ہماری فوج کو ملک کے اندر اور خارجہ پالیسی کے لحاظ سے جس تعاون کی شدید ضرورت ہے اس کا جوہر لحاظ سے قومی اور داخلی سطح پر شدید فقدان پایا جاتا ہے…… اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے خارجہ پالیسی کے باب میں وہ تعاون نہیں مل رہا جو ملکی دفاع کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے لازم ہے…… امریکہ ہم سے اپنے فوجیوں کے انخلا کے لیے مدد اور سہارا تو حاصل کر رہا ہے…… اس کے فوجی اسلام آباد اور کراچی کے ہوٹلوں میں بسیرا کیے ہوئے ہیں …… لیکن سب کچھ اس عالم میں ہو رہا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ٹیلیفون پر رسمی بات چیت کرنے کو تیار نہیں …… سارے معاملات کسی اور سطح پر طے کیے جا رہے ہیں …… قومی حلقوں میں اس پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں …… اگر یہ درست اقدام بھی ہے ہمیں دوسرے ممالک کو اس طرح کے حالات میں دست تعاون دراز کرنا چاہیے لیکن اہل وطن کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے اس طرح کے فیصلے کہاں ہوتے ہیں …… کون کرتا ہے…… اگر امریکی فوجی عارضی قیام کے لیے ہی آئے ہیں …… انہوں نے چند روز ہمارے ہوٹلوں میں قیام کے بعد رخصت ہو جانا ہے تو اس سارے کام کی جو اپنے اندر کئی نازک پہلو لیے ہوئے ہے کس نے اجازت دی…… امریکیوں نے کس سے طلب کی…… یا اچانک سب کچھ طے ہو گیا…… اگر پارلیمانی نمائندوں کو جی ایچ کیو میں طلب کر کے افغانستان کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی ہے تو انہیں اس پہلو سے کیوں بے خبر رکھا گیا…… کیا یہ سب کچھ ہماری کمزور خارجہ پالیسی پر دلالت نہیں کرتا جس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں کہ اس کی طنابیں کس کے ہاتھ میں ہیں اور آخری فیصلے کون کرتا ہے…… امریکیوں کو کھلی چھٹی کس معاہدے کے تحت دی گئی ہے…… ہماری ناکام اور کمزور ترین خارجہ پالیسی کا صرف یہ ایک پہلو نہیں ہے…… افغانستان کے مسئلے پر سلامتی کونسل کے اجلاس منعقد ہوئے…… بھارت کے پاس اس ماہ کی صدارت ہے…… اس نے تو پاکستان کا راستہ روکنے کی بھرپور کوشش کرنا تھی سو کی…… لیکن کیا ہمارے دفتر خارجہ کے بزرجمہر اتنی صلاحیت یا سفارتکارانہ مہارت بھی نہیں رکھتے کہ آگے بڑھ کر پانچ مستقل ممبران کے ذریعے یہ بات منوا لیتے کہ پاکستان ملک افغاناں کا قریب ترین ہمسایہ ہونے کے ناطے وہاں پر جنم لینے والے ایک ایک واقعے سے براہ راست اثر لیتا ہے اور کسی بھی ہمسایہ ملک سے زیادہ اس پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس کے مستقل نمائندے کی شرکت اور اظہار خیال ضروری ہے…… حیرت ہے ہمارے دیرینہ دوست عوامی جمہوریہ چین نے اپنی ویٹو پاور کو بروئے کار لاتے ہوئے مدد نہ کی اور کون نہیں جانتا کہ چین بھی ہمارے ساتھ خفگی رکھتا ہے اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پہلے جیسی گرم جوشی باقی نہیں رہی…… برطانیہ اور دوسرے ممالک ہمارے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں وہ بھی خارجہ پالیسی کے میدان میں ہماری پے در پے ناکامیوں کی فہرست میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے…… جب امور خارجہ میں ہماری حالت اس حد تک پتلی ہو گی تو بہادر افواج کو اپنی شاندار کارکردگی کے میدان میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ وضاحت کا محتاج نہیں ……
لیکن صرف خارجہ پالیسی کا کیا مذکور…… معاشی اور اقتصادی ترقی کے میدان میں عمران حکومت کے تمام تر دعاوی کے برعکس ہم مسلسل ٹھوکریں کھا رہے ہیں …… اس میں شک نہیں زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے…… جس کی وجہ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی نہیں …… جو امر مضبوط اقتصادی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے بلکہ غیرممالک میں روزگار کی خاطر مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر ہیں …… اسی طرح حکومت کے اس دعوے کو درست بھی مان لیا جائے کہ مجموعی پیداوار کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے جس کے اعدادوشمار پر کئی اقتصادی ماہرین اتفاق نہیں کرتے اس کے باوجود اس تناسب میں اتنی بڑھوتی نہیں ہوئی کہ مجموعی طور پر لرزہ براندام معیشت کو حقیقی سہارا مل پائے…… قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ خود سٹیٹ بنک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی جب کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے صحیح معنوں میں عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے…… حالانکہ ہماری بہادر فوج کو موجودہ حالات میں اپنی نازک ترین ذمہ دار یوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کہیں زیادہ مضبوط اور اپنے پیروں پر کھڑی ملکی معیشی  ڈھانچے کی ضرورت ہے جو ناپید ہے…… اس گنجلک صورت حال سے نکلنے کے لیے دو اقدامات کی فوری ضرورت ہے…… ایک اس تاثر کو غلط ہے یا صحیح لیکن بڑی تیزی سے پھیل چکا ہے اور اپنی جڑیں مضبوط تر کر چکا ہے کہ ملک کے سویلین معاملات پر حاضر سروس جرنیلوں کا تسلط ہے ان کی مرضی کے بغیر خارجہ امور نہ طے ہوتے ہیں نہ معیشت کے حوالے سے کوئی بڑاقدم اٹھایا جا سکتا ہے…… یہ تاثراگر غلط بھی ہے تو اسے جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا وقت کا اہم تقاضا ہے…… اور اگر اس میں صداقت کی تھوڑی بہت رمق بھی پائی جاتی ہے تو لازم ہے اس کا مداوا کیا جائے…… تاکہ ہماری بہادر افواج ہر قسم کے الزام یا غبار سے منزّہ ہو کر اپنی خدمات کو زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ نتیجہ خیز انداز میں سرانجام دینے کا موقع ملے…… دوسرا قدم اس ضمن میں لازمی اور فوری طور پر یہ اٹھایا جانا چاہیے جیسا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں بیک آواز ہو کر مطالبہ کر رہی ہیں آزاد، شفاف اور ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے پاک انتخابات کا فوری انعقاد کیا جائے…… جو بھی نتیجہ سامنے آئے اس کے مطابق ہر طرح کے غیرآئینی اثرات سے آزاد اور صحیح معنوں میں قومی نمائندگی کی حامل حکومت قائم کی جائے جو آئین پاکستان کی بالادستی اور منتخب پارلیمنٹ کی حکمرانی پر اصولی کے ساتھ عملاً بھی یقین رکھتی ہو باقی تمام ادارے حقیقی طور پر اس کے ماتحت ہوں …… صرف ایسی آزاد اور آئین و قانون کے تحت کام کرنے والی حکومت ہی موجودہ حالات کے اندر ہماری بہادر افواج کی پشت بانی کر سکے گی…… فوج کو بلاشبہ اس وقت بھی عوام کا اعتماد حاصل ہے لیکن جب اس کے پیچھے عوام کی منتخب کردہ حکومت کھڑی ہو گی تو اس اعتماد میں لامحالہ کئی گنا اضافہ ہو جائے گا…… یہ بلاشبہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے…… ملک کو جس قسم کے سٹرٹیجک چیلنجوں کا سامنا ہے ان کے پیش نظر اور داخلی لحاظ سے ہمیں جو استحکام درپیش ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ امر لازمی ہو چکا ہے کہ عوام کی نمائندہ حکومت اپنی قابل فخر مسلح افواج کو وہ اصولی اور اخلاقی تقویت فراہم کر ے جس کی بنا پر قومیں کامیابی کی منازل طے کرنے میں دیر نہیں لگاتیں اور اپنا مقام منوانے کے ساتھ نام بھی روشن کرتی ہیں ……