عدالتیں اور اسٹیبلشمنٹ

عدالتیں اور اسٹیبلشمنٹ

آج بھی وہی کچھ ہورہا ہے جو 2027-18 میں کیا جارہا تھا۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ اس وقت سب گن پوائنٹ پر ہورہا ہے مگر اب یہ مصیبت سیاسی جماعتوں خصوصا ًمسلم لیگ ن نے خود آگے بڑھ کر مول لی ہے۔ شہباز حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد سے ایسے فیصلے اور اشارے سامنے آرہے ہیں جن سے واضح ہورہا ہے کہ مقتدر حلقے اس حکومت کو بھی اپنی غلطی تصور کرتے ہوئے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے جھٹکے دے رہے ہیں۔ خصوصاً عدالتوں میں حکومت کے لیے بالکل گنجائش نہیں الٹا رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہے۔ اس مقصد کے لیے تحریک انصاف اور اسکے سربراہ عمران خان کو نہ صرف غیر معمولی رعایتیں دی جارہی ہیں بلکہ دوبارہ آگے بڑھانے کے لیے راستے بنائے جارہے ہیں۔ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد زیبا چودھری کو بھرے جلسے میں دھمکی توہین عدالت کا انتہائی ٹھوس کیس تھا۔ اسی دھمکی کی بنیاد پر پیمرا نے عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔پی ٹی آئی نے جیسے ہی اس پابندی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ اسی روز کیس لگا اور پیمرا کا حکم معطل کردیا گیا۔ اسی روز پتہ چل گیا تھا کہ اب توہین عدالت کیس کو بھی فارغ ہی سمجھا جائے کیونکہ پیمرا کے اس حکم کی بنیاد ہی خاتون جج زیبا چودھری کو دی جانے والی دھمکی تھی۔ یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ جس روز عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی ہٹائی گئی۔ اسی صبح سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی پنجاب اور کے پی کے وزرائے خزانے سے گفتگو کی آڈیو لیکس وائرل ہو چکی تھیں جس میں پتہ چل گیا تھا کہ پی ٹی آئی اپنی سیاست چمکانے کے لیے آئی ایم ایف کی ڈیل کو سبوتاژ کرکے ملک کو داؤ پر لگانے پر اتر آئی ہے اور اس سے ایک روز پہلے ہی جہلم کے جلسے میں عمران خان کی موجودگی میں ایک خاتون رہنما بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اکسا رہی تھیں کہ وہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے حکومت کو امداد نہ بھجوائیں۔ اب جب توہین عدالت کیس میں عمران خان کو ”باعزت بری“ کرنے کے لیے عدالتی موڈ آشکار ہو چکا ہے تو شہباز گل کے خلاف بغاوت کا کیس بھی بہت جلد ہوا میں اڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ کہہ کر بغاوت کیس کا ”فیصلہ“ بھی سنا دیا کہ وفاق بغاوت اور غداری کے کیس پر نظر ثانی کرے، اس کا مطلب ہے کہ پاک فوج میں بغاوت کی سوچی 
سمجھی سازش کرنے والے تمام کردار جلد نہایت اطمینان اور تسلی سے اپنا نیا ایجنڈا مسلط کرتے نظر آئیں گے۔شہباز حکومت آنے کے بعد آنے والے ناموافق عدالتی فیصلوں پر سرکاری حلقوں کو سانپ سونگھ جاتا رہا ہے۔مولانا فضل الرحمن واحد سیاستدان ہیں جو جلسوں میں کہتے آرہے ہیں کہ جج صاحبان اپنی آئینی اور قانونی حدود میں رہیں۔ پیپلز پارٹی سمیت باقی تمام جماعتیں واضح موقف دینے سے گریز کرتی رہیں جس کے سبب آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ لوگوں کو خدشات ہیں کہ اس حکومتی ڈھانچے کو بھی عدالتی احکامات کے ذریعے ہی منہدم کردیا جائے گا۔ بہر حال اب ایک تبدیلی حکومت کی جانب سے بھی نظر آئی ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ عدالت نے عمران خان کے لیے نرم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ایک اور موقع فراہم کیا۔عمران خان کے لیے لاڈلے کا تاثر ختم کرنے کے لیے قانون کا اطلاق ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کے مرتکب شخص کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا، توہین عدالت کرنے والا شرم محسوس نہ کرے تو کبھی سزا کے بغیر اسے رخصت نہیں کیا گیا۔وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں طلال چوہدری اور دانیال عزیر کو سزا ملنے کے بعد رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا، نہال ہاشمی کو جیل بھی بھگتنا پڑی، یوسف گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا۔آئین کہتا ہے سب سے یکساں سلوک ہونا چاہیے، امید رکھتا ہوں عدالت ان مقدمات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری کو دھمکی پر بار ایسوسی ایشن کی خواتین تک نے کہا کہ اس طرح کی زبان ماضی میں کبھی برداشت نہیں کی گئی۔
وزیر قانون نے بالکل درست کہا کہ خاتون جج کسی کی بیٹی، ماں اور بہن ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بیٹی ہیں، اعظم نذیر تارڑ کا شمار ملک کے بڑے وکلا میں ہوتا ہے۔ لیکن لگتا نہیں کہ ان کی گذارشات کا کوئی اثر عدلیہ پر ہوگا۔ آج کل کئی حلقوں نے یہ بھی شور مچا رکھا ہے کہ آئی ایم ایف ڈیل کے خلاف سازش کرنے پر شوکت ترین اور دیگر کرداروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسی لیے وزیر قانون نے بھی کہہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ اپنے حلف کی پاسداری سے بھی گئے، شوکت ترین کا اقدام بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔اس معاملے کے بارے میں وزارت قانون اور داخلہ میں مشاورت جاری ہے،  شوکت ترین کی پنجاب اور کے پی کے کے وزرائے خزانہ کو کال کا فارنزک آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے، رپور ٹ آنے کے بعد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔زمینی حقائق دیکھ کر آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کرنا حکومت کی خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن معاملہ عدالتوں میں جاتے ہی یہ خوش فہمی بھی دور ہو جائے گی۔ یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ حکومت لینے کا فیصلہ تو ٹھیک تھا مگر اسٹیبلشمنٹ سے اسکا اپنا پھیلایا ہوا گند خود صاف کرنے کی جو امید باندھی گئی تھی وہ سراب نکلی۔ اب کیا کرنا چاہیے وہ سادہ سا فارمولا”سیاسی خانہ بدوش“ فواد چودھری بار بار بتا رہے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت ہی اتنی ہے کہ کوئی سزا دینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی نے جہاں جہاں چڑھائی کی وہ قلعے فتح  ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ناقص طرز حکمرانی سے، پچھلی حکومت کے چار سال کے اقتصادی گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے موجود حکومتی ڈھانچہ صرف عوام ہی نہیں اپنے آپ پر بھی بوجھ بن چکا ہے۔ حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات بھی اندازہ ہوچکا کہ ان سب کے ساتھ ڈبل گیم ہورہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں بلکہ ایک حکمت عملی کے تحت سب کو استعمال کررہی ہے۔

مصنف کے بارے میں