پاکستان اپنے وقار پر سمجھوتا نہیں کرے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر

پاکستان اپنے وقار پر سمجھوتا نہیں کرے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر

اسلام آباد: ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے وقار پر سمجھوتا نہیں کرے گا, امریکی صدر کے بیان پر قومی رد عمل خوش آئند ہے، بھارت سے درپیش مسائل کے حل کے بغیر خطے میں امن مشکل ہے۔ پاکستان اور امریکا اب بھی دوست ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات میں اونچ نیچ  آتی رہتی ہے ہم امریکا سے تعاون کر رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں اور  ایسے مواقعوں کی لمبی فہرست موجود ہے جس میں ہم نے امریکا کا ساتھ دیا، ایک وقت تھا ہمارے پاس چوائس تھی کہ روس کے پاس جائیں۔

ایک پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کو لیشن سپورٹ فنڈ افغانستان کی جنگ کیلیے تھا، افغانستان میں ایک کھرب ڈالرخرچے کا نتیجہ سب کو معلوم ہے اور آج بھی ہماری 2 لاکھ سے زائد فوج سرحد پر موجود ہے، پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے اتحادی ہیں اور ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہے۔حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن آنے والا وقت بتا سکتا ہے۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارت سے درپیش مسائل کے حل کے بغیر خطے میں امن مشکل ہے کیوں کہ جب ہمارے قدم کامیابی کی طرف بڑھ رہے تھے تو کلبھوشن کا معاملہ آ  گیا اور بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں ملیں اور وہ امن کی جانب بڑھتا رہے، امریکی صدر کے بیان کے بعد کور کمانڈر کانفرنس کابینہ اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس بیان پر قومی رد عمل دیا گیا، امریکی صدر نے پاکستان کو امداد کی فراہمی سے متعلق بات کی ہے اس حوالے سے یہ کہوں گا کہ دنیا میں جو بھی ممالک ہیں ان کا آپس میں دفاع پر باہمی تعاون ہوتا ہے ایسا ہی ہمارا بھی امریکہ کے ساتھ ہے اگر 15سے 20ملین کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں آیا تو کولیشن سپورٹ فنڈ افغانستان کی جنگ کے لیے دیا جاتا تھا جو ہم نے ان کے آپریشن کو سپورٹ کرنے کے لیے خرچ کیا، اس فنڈ سے کہیں زیادہ پاکستان نے خود اپنا پیسہ خرچ کیا اس جنگ میں پاکستان کو 23بلین ڈالر کا نقصان ہوا، جانی قربانیاں اس کے علاوہ ہیں۔ امریکہ افغانستان میں ایک ٹریلین خرچ کر چکا ہے جو حاصل حصول ہے سب کے سامنے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی اور پاکستان پیسے کے لیے نہیں لڑ رہا بلکہ خطے کے امن اور اپنے ملک میں امن کے لیے لڑ رہا ہے پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی ہیں پاکستان اور امریکہ کا ساتھ دینے کی ایک لمبی فہرست ہے جبکہ بہت سے مواقعوں پر امریکہ نے ہمارا ساتھ نہیں دیا حالانکہ ہمیں شدید ضرورت بھی تھی ایک وقت تھا ہمارے پاس چوائس تھی کہ روس کے پاس جائیں مگر نہیں گئے، ہمارے تعلقات میں اتار چڑھائو آتے رہے ہیں لیکن ابھی تک ہم دوست ہیں ہم نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا ضرب عضب کے اثرات ابھی سامنے آرہے ہیں اس کے بعد ملک میں امن بہتر ہوا ہے اسی طرح حقانی نیٹ ورک کے خلاف ایکشن آنے والا وقت بتا سکتا ہے، امریکہ کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان نے جو کچھ کیا ہے اس کا اثر کیا آرہا ہے اور تعاون ہی ہمیں آگے لیکر جا سکتا ہے، ہماری باہمی تعاون سے آگے بڑھنے کی کوشش ہے مگر ہم اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے، ہم سمجھتے ہیں ہم اتحادی اور دوست ملک ہیں اتحادی کے ساتھ جنگ تو نہیں ہو سکتی، ہم باہمی تعاون کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن اگرامریکہ کی طرف سے کوئی ایکشن کیا گیا تو پھر حکومت فیصلہ کرے گی اور حکومتی فیصلے کے مطابق عمل کیا جائے گا، ہمیں ابھی تک یقین ہے اس خطے میں امن کے لیے اور بہت ایشو ہیں بعض تیسری قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کی غلط فہمیاں بڑھیں ان کی اس خواہش کو ہوا ملے گی، ہم چاہتے ہیں امریکہ اس کو اس زاویے سے دیکھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم 20 کروڑ کی آبادی کا ملک ہیں ہم ایٹمی قوت ہیں ہمیں کسی کی سیکورٹی گارنٹی کی ضرورت نہیں ہے ہم ذمہ دار قوم ہیں ہم خطے کے امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، امریکہ کو دیکھنا چاہیے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ متنازعہ ایشو ہیں ان کے حل ہونے تک خطے میں امن کا قیام مشکل ہے، افغانستان میں ہم نے ایساف سے ملکر کام کیا ہے اس کو مستقل امن کی طرف لیکر جانا ہے اس میں بھارت کا بڑا منفی کردار ہے اس نے نہ صرف افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کیں بلکہ دہشتگردی کو سپورٹ کیا ہے اسکا جیتا جاگتا ثبوت کلبھوشن کی شکل میں موجود ہے جس کو پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ اس نے پاکستان میں کیا کچھ کیا ہے، نکی ہیلی کا پس منظر انڈین ہے دیکھنا چاہیے کہ کوئی ایسی قوتیں ہیں جو پاکستان اور امریکہ کے تعاون کو خراب کرنا چاہتی ہیں اور ہماری غلط فہمیوں کا افغانستان کے امن اور خطے کے امن میں کیا منفی اثر جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جب 9/11ہوا اور امریکہ نے افغانستان میں اپنی کاروائی شروع کی تو اس وقت بھارت کی فوج کدھر تھی اور پاکستان کی فوج کدھر تھی انڈیا کو علم تھا کہ اس وقت افغانستان میں ایک جنگ شروع ہو چکی ہے اور پاکستان کی مغربی سرحد پر پاکستانی فوج کی ضرورت بھی پیش آسکتی انہوں نے گڑ بڑ کر دی اس وقت ہماری ساری فوج کی توجہ مشرقی سرحد پر مرکوز تھی اب جب ہمارے قدم کامیابی کی طرف بڑھ رہے تھے تو انہوں نے کلبھوشن بھیج دیا اب جب ہم نے اپنی طرف امن قائم کر لیا ہے اور ہمارا کچھ کردار افغانستان کی طرف بنتا ہے تو انڈیا نے 2017میں لائن آف کنٹرول پر پچھلے دس سال سے زیادہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں کیں اور ہماری ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ انڈیا کو بتائے کہ پاکستان کی افواج خطے میں امن کے لیے بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں، بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کوششیں کامیاب ہوں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا امریکہ کے لیے بیان بہت خوش آئند ہے یہی اس وقت کی ضرورت ہے اور یہی ایک بہتر اشارہ ہے کہ پوری سیاسی اور فوجی قیادت اور عوام نے یک زبان ہو کر ایک موقف اپنایا ہے، موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمیں ایک ہونے کی ضرورت ہے اور ہمیں ایک ہو کر ہی تمام چیلنجز کا سامنا کرنا ہے۔

مصنف کے بارے میں