پاکستان واقعی نازک موڑ پرآ چکا ہے؟

پاکستان واقعی نازک موڑ پرآ چکا ہے؟

پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی منحوس آوازیں سب سے پہلے عمران خان کے دور حکومت میں اُس وقت آنا شروع ہوئیں جب شبر زیدی چیئرمین ایف بی آر کے عہدہ پرتھے اور پھر لمحہ بہ لمحہ یہ آوازیں تواتر اور تسلسل کے ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ آج بھی عمران خان سمیت تحریک انصاف کے ہر لیڈر کا کہنا ہے کہ پاکستان 90% دیوالیہ ہو چکا اگر الیکشن کرا دیئے جائیں تو نئی عوامی حکومت (یعنی پی ٹی آئی کی حکومت) اتنی تیزی سے حالات کو درست کردے گی کہ کسی قلندر نے آج تک اتنی رفتار سے کسی چور کو قطب بھی نہیں بنایا ہو گا۔ شبر زیدی نے ایک چینل پر اینکر بیرسٹر احتشام امیر الدین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان دیوالیہ ہو جائے تو بہترہو جائے گا۔شبر زیدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا بس اُس کا اعلان نہیں ہو رہا۔ شبرزیدی کو شاید یہ معلوم نہیں کہ پاکستا ن میں اگرپیٹرول کی عدم دستیابی ہوتی ہے تو نظام زندگی مفلوج ہو کررہ جائے گا۔ ملک تاریکی میں ڈوب جائے گا اور لوگ اپنا موبائل فون بھی چارج نہیں کر سکیں۔ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی ختم ہو کر رہ جائے گی۔ انسانی زندگی مقفل اورقید ہو جائے گی۔ سو ان حالات کے آنے سے پہلے ہمیں خود بہت کچھ کرنا ہو گا۔ دکانیں صبح 8 بجے کھولیں اور 6 بجے شام بند کر دیں۔ مہنگی گاڑیوں اورغیر ضروری سامان (امراء کے سامان آسائش)برآمد کرنے پرفوری پابندی عائد کی جائے۔صدارتی محل ٗ قومی اسمبلی ٗ سینٹ ٗ صوبائی اسمبلیوں اورسیاسی عہدوں پر بیٹھے عہدوں کی تمام سہولتں بمعہ تنخواہیں صفر کردی جائیں۔سرکاری ملازمین کی چھٹیوں کی تنخواہ کاٹ لی جائے خواہ بعدازاں حالات درست ہونے پر اُن کی کٹوتی انہیں تنخواہ کے ساتھ ویسے ہی واپس کردی جائے جیسے کاٹی جائیں۔ ایسے لاتعداد احکامات فوری طور پر نافذ العمل کرانا ہوں گے۔ پورے پاکستان پر سقوطِ مرگ طاری کرنے سے بہتر ہے چند خاندانوں پر کر دیا جائے۔ دیوالیہ ٗ دیوالیہ کی رٹ لگانے والوں کو فوری طور پر ملک دشمنی کے مقدمہ میں گرفتار کیا جائے تاکہ یہ منحوس آواز اٹھنا تو بند ہو۔ ہمیں عوام کو ریاست کی موجودگی کا یقین دلانا ہو گا کیوں کہ عوام کسی بھی ملک کے ہوں اُسے جب تک اپنی ریاست پر اعتماد ہو وہ انارکی کی طرف نہیں جاتے ٗہم کسی نئے تجربے یا کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔کسی ریاست کے اندر سے اُس کے دیوالیہ ہونے کی آوازیں اٹھنا ریاست کے وجود اور عوام کی زندگی کیلئے انتہائی خطرناک ہو تا ہے۔ ہمیں ملک دشمن آوازیں دبانا ہوں گی مکمل ریاستی طاقت کے ساتھ ٗ اپنے معاشی اور سیاسی تجزیہ کاروں کو سننے کے بعدجب میں بازار سے گزرتے لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھتا ہوں تووہاں سکون ہی سکون نظر آتا ہے۔ دکاندار اپنی لوٹ مار میں خوش ہیں ٗ کلرک سے لے کر اعلیٰ افسر تک سب اپنے اپنے ”کاموں“ میں مصروف ہیں۔سیاست دان اپنے اپنے بیانیوں کے مزاروں میں بیٹھے قوم کو نت نئی راہیں دکھا رہے ہیں ٗ پٹرول مہنگا ہے مگر مل رہا ہے ٗ آٹا مہنگا ہے مگر میسرہے ٗ ضروریات زندگی پہنچ سے باہر ہیں مگردستیاب ہیں سو اِن حالات میں جب عوام پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں ٗ پاکستان کے طول و عرض سے اٹھنے والی ناپسندیدہ اور اقتدار پسند آوازیں صرف اپنے مفاد تک دیکھ رہی ہیں۔ اُن کا پاکستان اورپاکستانیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے نزدیک پاکستانی ٗشہری نہیں صرف ووٹرز ہیں جن کو صرف اس لئے گنا جاتا ہے کہ قومی اورصوبائی حلقوں کی تقسیم درست ہوسکے۔
1970 ء کے انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان دو لخت ہوااوراقتدار بھٹو مقتول کو سونپ دیا گیا جس کے پاس 1970 ء کے انتخابات میں اقلیت اور پاکستان کی جغرافیہ اورآبادی دونوں تبدیل ہو چکے تھے۔۔1977ء کے عام انتخابات پاکستان میں جنرل ضیاء الحق اور افغانستان جنگ لے آئے۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابا ت ضیاء الحق کی مستقل فورس بنانے کیلئے کرائے گئے۔ 1988 ء کے انتخابات جنرل ضیاء الحق کا طیارہ گرنے کے بعد ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی لیکن 18 ماہ تک عوام ایک ذہنی ہیجان میں مبتلا رہے۔ 1990ء کے انتخابا ت بھی 1993ء تک چل سکے اورغلام اسحاق خان نے ایک بار پھر اسمبلی توڑ دی۔پاکستان کی عوام کو ایک بار پھر ووٹ دینے کیلئے اکھٹا کیا گیا اوراقتدار کا ہما
ایک بار پھرمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے سر پر بیٹھ گیا لیکن جلد ہی اُن کے اپنے منہ بولے بھائی فاروق لغاری نے اسمبلیاں توڑ دیں جس کے نتیجہ میں ایک نیا الیکشن ہوا اورمیاں محمد نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر اقتدار میں پہنچ گئے لیکن اکتوبر 1999 میں یہ اسمبلی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی اورعوامی مینڈیٹ ایک بار پھرذوالفقار علی بھٹو کی پیشن گوئی کے مطابق جنرل پرویزمشرف اور اُس کے ساتھیوں کے پاس چلا گیا۔ 2002 ء کے انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ قاف کی حکومت بنی پہلے ظفراللہ جمالی اوربعد ازاں شوکت عزیز پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ 2007ء کے انتخابات محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو نگل گئے لیکن مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی لیکن اس بار بھی دو وزیراعظم اقتدار میں رہے پہلے یوسف رضا گیلانی جنہیں ایک عدالتی فیصلے میں نااہل قرار دے دیا تو راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنا دیئے گئے۔ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ اقتدا ر میں آئی میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے لیکن انہیں بھی ایک متنازع عدالتی فیصلے میں نااہل قراردے کر فارغ کردیا گیا اورمسلم لیگ نون کے خاقان عباسی وزیر اعظم کے عہدہ پر براجمان ہو گئے۔ 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن کر ابھری لیکن اُسے ایک مضبوط اپوزیشن اور کمزور اتحادیوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجہ میں پہلی بار پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کے خلاف کامیاب عدم اعتماد ہوا اورمیاں محمد شہباز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے لیکن عمران خان نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا اوراسے امریکی سازش اور فوج کی پشت پناہی ختم ہونے سے منسوب کرکے کسی بڑی تحریک کی آس لئے سٹرک پر آ نکلے لیکن جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ اُن کے ”دودھ پینے والے مجنوں خون دینے کیلئے تیار نہیں“۔اپنے مذہبی بیانیے کی وجہ سے وہ ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے اورتا دمِ تحریربسترِ علالت پرویڈیو پیغامات و تقاریر اور فون پر اپنے ”ورکروں“ سے رابطے میں ہیں۔
الیکشن کی تاریخ کا یہ طائرانہ جائزہ ہمیں صرف یہ بتاتا ہے کہ الیکشن کے نتیجہ میں پاکستانی عوام کو اگر کوئی ریلیف ملا ہے تو وہ صرف ن لیگ ٗ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی حکومت کے دوران کاتب ِ تقدیر نے لکھا ہے۔ورنہ پاکستانی عوام کی مجموعی زندگی سوائے پریشانیوں اور دکھوں کے اورکچھ بھی نہیں تھی۔ البتہ سیاسی طور پر ایک بات اچھی سامنے آئی کہ پاکستان اسمبلیوں نے 2002ء کے بعد اپنی مدت پوری کی ہے جس تسلسل کو عمران خان قبل ازوقت الیکشن کرا کر ختم کرنا چاہتا ہے۔ 1970ء سے اب تک11 عام انتخابات ہو چکے لیکن عوام نے ہر انتخاب میں کھویا ہے پایا کچھ نہیں اورموجود ہ ملکی حالات دراصل انہی الیکشن کا نتیجہ ہے جوہمیشہ عوام کی فلاح کے نام پر سیاستدانوں اورفوجی جنتا نے کرائے۔ ہم بچپن سے سنتے آئے کہ پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے اورشاید یہی وہ نازک موڑ تھا جس کی نشاندہی ہمارے زیرک سیاستدان اور اقتدار میں آنے اور پردۂ سکرین کے پیچھے بیٹھے کرحکومتیں چلانے والے جرنیل کرتے رہے ہیں۔ کھیل تماشے کا وقت گزر چکا ہے۔ہماری ایک غلطی ہمیں ذلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت کے پاس امریکہ یا یورپ کی شہریت یا ویزے نہیں ہیں اُن کا سب کچھ پاکستان ہے یا پھر پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ ہم تمہاری عیاشیوں کو اپنے بچوں کے خو ن پر نہیں پال سکتے ٗ حکومتیں تمہیں دی تھیں تو جواب بھی تمہیں دو گے ٗ پالیسیاں تم نے بنانی تھیں ٗ نہیں بنائیں تو اُس کے ذمہ دار بھی تم ہو ٗ عوام بددیانت ہے تو اُس نے یہ سب کچھ اپنے حکمرانوں سے سیکھا ہے ٗ شاید یہی وہ بیرونی خطرہ تھا جو آج پاکستانی عوام کے سامنے کھڑا ہے ٗ شاید یہی وہ بیرونی ہاتھ ہے جوہمیشہ ہر حکمران کی زبان پر رہا ہے۔ا ن حالات میں ایک معاشی ایمرجنسی کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان کے رستے سینٹرل ایشیا تک جانے والا ہمارا سامانِ زیست اورپاکستانی بچوں کا مستقبل بچ سکے۔ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی منحوس آوازیں روزانہ قومی چینلز پر سنائی دے رہی ہیں۔ یہ پاکستان کی ہواؤں اور فضاؤں کو خوفناک اورڈرا دینے والا بنا رہی ہیں۔ ہمیں بہت سے اقدام کرنا ہوں گے جس کیلئے ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔اتنا کم کہ سیاستدانوں کو عوام سے پہلے اپنے گھروں سے نکلنا پڑے گا کیونکہ عوام جب معاشی ایجنڈے پر باہر نکلتی ہے توپھر تاج اچھالے اورتخت گرائے جاتے ہیں اور وہ وقت بہت بُرا ہوتا ہے۔