سحر سسکتے ہوئے آسمان سے اتری

سحر سسکتے ہوئے آسمان سے اتری

ایک اور سال آہوں، سسکیوں، ہچکیوں اور آنسوؤں میں گزر گیا۔ کروڑوں پاکستانی عوام نے چیخ چیخ کے آوازیں دیں رو رو کے پکارا اور ماتم کر کر کے اپنے حالات بتائے۔ کم آمدنی والے خاندانوں کے افراد نے اپنی تنخواہیں بتائیں اور بجلی کے بل دکھائے۔ خواتین نے بچوں کی فیسیں اور سادہ ترین نان نفقہ پر اٹھنے والے اخراجات اور آمدنی کا فرق بتایا۔ مہنگائی کی خونی بلا کے سامنے حوصلہ ہار کے خودکشی کرنے والوں کی خبریں سامنے آئیں۔ لیکن ملک پر قابض انسان نُما مخلوق ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ادویات کی قیمتیں بلندیوں کی حد پھلانگ گئیں اور علاج پہنچ سے اتنا دور ہو گیا کہ عیاشی کا خواب محسوس ہونے لگا۔ روزگار ملنے کے بجائے چھین لیے جانے لگے۔ مبینہ طور پر سات لاکھ خاندانوں نے اپنے وطن کو خدا حافظ کہہ دینے میں عافیت سمجھی۔ ملک کے وسائل اور اختیارات پر قابض طبقے کے تعیش میں ذرا کمی نہیں آئی۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر کی بے توقیری کی تلوار صرف پاکستان کے عام اور سفید پوش اور غریب جنتا کی گردن پر چلی۔ سال کے آغاز میں پاکستان بچانے کے نام پر سرگرم ہونے والے افراد نے ملک کو پہلے سے لگے زخموں اور کمزور حصوں پر نشانہ باندھ کے ضربیں لگانا شروع کیں۔ قدم قدم پر آئین، قانون اور انصاف کی ایسی ایسی بے حرمتی کی گئی کہ اس سے پہلے کبھی دیکھی نہیں تھی۔ غضب دیکھیے کہ باقاعدہ طور پر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگوں کو ان کی بے بسی کا احساس دلایا گیا۔ طاقت کا اتنا بے دھڑک استعمال صرف ایسے معاشروں میں نظر آتا ہے جو جنگل میں تبدیل کر دیئے گئے ہوں۔ ملک
میں کروڑوں کی تعداد میں موجود کمزور عوام اور اندھی طاقت کے نشے میں دُھت چند درجن بدمست ہاتھیوں کے درمیان فرق اتنا واضح ہوا کہ اندھوں کو بھی دکھائی دینے لگا۔
سال بیس ہزار بائیس اس لحاظ سے عجیب تھا کہ مذہب، فرقوں، گروہوں، برادریوں طبقوں اور سیاسی پارٹیوں میں بار بار تقسیم کر کے مارے جانے والے لوگوں کو اندازہ ہوا کہ دین، عقیدے، زبان اور علاقوں کی بنیاد پر لوگوں کو آپس میں لڑا کر اقتدار پر قابض ہونے والے آج اسی اقتدار کے لیے مل بیٹھ کے تاج و تخت کو جپھا ڈالے ہیں۔ آج یہ چند ظالم خاندان ایک طرف ہیں اور پاکستان کے کروڑوں مظلوم خاندان دوسری طرف ہیں۔
زندہ قومیں اپنے آنے والے سو سو سال کے اہداف مرتب کرتی ہیں۔ ہر دن مہینہ قدم قدم آگے بڑھتی ہیں سال بہ سال جائزہ لیتی ہیں اور ایک ہم ہیں، بدنصیبی کی ماری ہوئی قوم اور بد عہدی کے ہاتھوں مفتوح ملک جو ہر آنے والے سال کے دروازے میں گزرے ہوئے سال کے گھاؤ سر پر اٹھائے داخل ہوتے ہیں۔ کیا شاندار لوگ تھے ایسٹ انڈیا کمپنی والے بھی کہ تجارت کرنے آئے اور پورے برصغیر پر قابض ہو گئے اور جب گئے تو تقسیم کر کے کمزور بھی کر گئے اور اپنا قبضہ بھی نہیں چھوڑا۔ داد دیجئے کہ انگریز بہادر بظاہر یہاں موجود نہیں لیکن جلیاں والا باغ جیسے واقعات ہمیشہ دہرائے جاتے رہے ہیں۔ کچھ لوگ بیچارے اب بھی بے خبر ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ کیا گیا تھا، کیا جاتا رہا ہے اور کیا جا رہا ہے، کچھ لوگوں کو شک سا گزرنے لگا ہے کہ سب کچھ اتنا سادہ نہیں اور زیادہ تر لوگوں پہ روز روشن کی طرح ساری کہانی عیاں ہو چکی ہے۔ ان کو پس پردہ بیٹھ کے ڈوریاں ہلانے والے بھی نظر آنے لگے ہیں اور سٹیج پر ناچنے والی خونی کٹھ پتلیاں بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک شاعر کی حیثیت سے اگر مجھے اپنی ذمہ داری کا احساس ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ باشعور اور صاحب احساس لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے سب کچھ ہوتا دیکھتے رہیں اور کچھ نہ کریں۔۔۔
احساس کو اظہار سے باہم نہ کروں میں
پھاڑوں نہ گریبان، دمادم نہ کروں میں
میں روز اٹھاتا ہوں کسی خواب کی میت
اور آپ یہ کہتے ہیں کہ ماتم نہ کروں میں
اک شخص دکھا دو مجھے ہنستا ہوا دل سے
یعنی کہ یہ سب دیکھ کے بھی غم نہ کروں میں
چلانے پہ کہتے ہو بغاوت ہے بغاوت
اور صبر پہ کہتے ہو کبھی کم نہ کروں میں
صد حیف جو مظلوم کی آواز نہ بن پاؤں
صد حیف اگر شعر کو پرچم نہ کروں میں
عوامی غم و غصہ نفرت میں بدلتا جا رہا ہے۔ آج عمران خان سے امید لگائے بیٹھے لوگ جب مایوس ہو جائیں گے تو اس وقت سے ڈر لگتا ہے۔ کیونکہ بھوک سے بڑی بے باک شے دنیا میں نہیں۔ یہ بھوک ہی ہے جو انسانوں کو حیوانوں میں بدلتے دیر نہیں لگاتی۔ اگر دولت اور اقتدار کی ہوس درندہ بنا سکتی ہے تو بھوک تو اس سے کہیں طاقتور بلا ہے۔ اب تو بھوکا رکھ کے مارنے والوں کی نشاندہی بھی ہو چکی ہے۔ دہشت گردی کا ہتھیار بھی اب اس قوم کو ڈرا کے رکھنے والا نہیں ہوسکتا کیونکہ جتنی دہشت گردی اس قوم نے دیکھ لی ہے شاید ہی کسی اور نے دیکھی ہو۔ ایک اور پیلا سال گزر گیا۔ ایک اور کالا سال شروع ہو چکا ہے۔ دعا ہے کہ کہیں یہ کالے پیلے رنگ خون کی سرخی میں نہ بدل جائیں۔ رب تعالیٰ ہم سب کے اندر شعور اور دانائی پیدا کرے اور سب کو اس خوفناک وقت سے بچائے۔
سحر سسکتے ہوئے آسمان سے اتری
تو دل نے جان لیا یہ بھی سال درد کا ہے