سید صلاح الدین دہشت گرد نہیں ہمارے دلوں کی دھڑ کن ہیں

سید صلاح الدین دہشت گرد نہیں ہمارے دلوں کی دھڑ کن ہیں

سید یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین فروری 1948 میں وسطیٰ کشمیر کے ضلع بڈگام کے علاقے سوئبگ میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والدین کی ساتویں اولاد تھے۔ آپ کا خاندان علاقے میں ایک بلند پایہ روحانی مرتبہ رکھتا ہے۔ آپ کے والد نے مریدوں سے نظرانے وصول کرنے کے بجائے رزق حلال کمانے کے لئے محمکہ ڈاک کی ملازمت اختیار کی۔ اسی لئے سید صاحب کا خاندان معاشی اعتبار سے ایک درمیانے درجے سے تعلق رکھتا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کی۔ بچپن میں آپ کا شوق طب کا پیشہ اختیار کرنے کا تھا۔لیکن بعد میں آپ نے سول سروس میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ اسی لئے آپ نے طب کی جگہ سیاسیات کے مضمون کا انتخاب کیا۔ کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے 1971 میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

دوران تعلیم ہی پیری فقیری کے لئے مشہور خاندان کا یہ ہونہار نوجوان جماعت اسلامی سے متعارف ہوا۔ جس سے زندگی کا رُخ تبدیل ہوگیا۔ سرکاری ملازمت کے بجائے اسلامی انقلاب اور آزادی کا حصول زندگی کا مشن بنا۔ سید یوسف شاہ نے مقبوضہ کشمیر یونیوسٹی کے دور میں جماعت کی طلبہ تنظیم جسے اُس وقت (جماعت اسلامی شعبہ طلبہ کہا جاتا تھا) میں شمولیت اختیار کی۔ جس وقت آپ نے اپنی ماسٹر ڈگری مکمل کی اُس وقت آپ اسی "شعبہ طلبہ" کے سربراہ تھے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے بجائے سول سروس کا امتحان دینے کے ایک مقامی اسلامی مدرسے میں بطور استاد ملازمت اختیار کی۔ ساتھ ہی آپ نے جماعت اسلامی حلقہ سری نگر میں بطور کارکن کام کا آغاز کیا۔ فطری قائدانہ صلاحتیوں اور پوری تندہی سے دعوت دین کا کام کرتے ہوئے جلد ہی آپ جماعت اسلامی سری نگر کے امیر منتخب ہو گئے۔آبائی تعلق نہ ہونے کے باوجود آپ نے شبانہ روز محنت اور عوام کی بے لوث خدمت کے ذریعے سری نگر کی سیاست میں ایک منفرد مقام بنا لیا۔ 1987 کا ریاستی اسمبلی کا انتخاب آپ نے متحدہ مسلم محاذ کے پلیٹ فارم سے لڑا۔ اُس وقت کے تمام جائزوں کے مطابق آپ سری نگر کے حلقے امیرا کدل سے بھاری اکثریت سے انتخاب جیت رہے تھے۔ پولنگ سٹیشنز سے موصول ہونے والے نتائج کے مطابق بھی انتخاب جیت چکے تھے۔ تاہم مقبوضہ کشمیر کے الیکشن کمیشن نے آپ کے بجائے نیشنل کانفرنس کے امیدوار خواجہ غلام محی الدین شاہ کی جیت کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی سید صاحب کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ صورتحال صرف ایک حلقے کی نہیں تھی بلکہ پورے کشمیر کے انتخابات کو اسی طرح ہائی جیک کیا گیا، تاکہ اسمبلی میں آزادی پسندوں کی آواز نہ گونج سکے۔ اس کھلی دھاندلی کے خلاف عوام نے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ اور یہی کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ کشمیر میں ہر طرف مظاہرے پھوٹ پڑے، نوجوانوں نے تھانوں پر حملے کیے اور اسلحہ چھین لیا۔ یوں تحریک آزادی کشمیر کی نئی مسلح جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔
سید صلاح الدین صاحب کو گرفتاری کے دو سال بعد 1989 میں جیل سے رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے سیاست کے بجائے عسکریت جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ وہ "ماسٹر احسن ڈار" کی سربراہی میں قائم ہونے والی حزب المجاہدین میں شامل ہو گئے۔ یہاں بھی بہت جلد اپنی قائدانہ صلاحتیوں کا لوہا منوایا۔ 1992 میں آپ کو حزب المجاہدین کا امیر منتخب کر کیا گیا۔ اسی موقع پر ہی آپ نے سید یوسف شاہ کا نام ترک کر کے صلاح الدین ایوبی کی نسبت سے سید صلاح الدین کا نام اختیار کیا۔ اور آج اسی نام سے دنیا میں جانے جاتے ہیں۔
امیر حزب المجاہدین منتخب ہونے کے بعد آپ نے حزب المجاہدین کو زیادہ موثر انداز میں منظم کیا۔ بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کو آپ نے مٹھی بھر نیم مسلح اور نیم تربیت یافتہ مجاہدین کی مدد سے ناکوں چنے جبوائے۔ عسکریت کی ایک ایسی بنیاد رکھی جسے تین عشروں بعد اور حالات کے تمام تر غیر معمولی اُتار چڑھاو کے باوجود ہندوستان مٹانے میں ناکام ہے۔
4 سال تک میدان کارزار میں رہ کر بھارتی فوجوں کے لئے ڈرائونا خواب بنے سید صلاح الدین 1996 میں آزاد کشمیر آئے۔ جہاں آپ کو مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد کرنے والی چودہ مسلح تنظیموں کے اتحاد، متحدہ جہاد کونسل کا سربراہ تسلیم کیا گیا۔
سید صلاح الدین ایک سیاستدان اور عسکری قائد کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں روحانی شخصیت بھی سمجھے جاتے ہیں۔ سید صلاح الدین کشمیری کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں پر یکساں مہارت رکھتے ہیں اور تینوں زبانوں میں یکساں روانی سے گفتگو کرتے ہیں۔ آپ انگریزی میں شاعری بھی کرتے ہیں۔" کینیڈا فری پریس" کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ آپ کی انگریزی نظیمیں یونیورسٹی کے دور میں انتہائی مقبول ہوا کرتیں تھیں۔
آج جب امریکا نے ان کو عالمی دہشت گرد ڈیکلیرر کر دیا ہماری نظروں میں انکی قدر مزید بڑھ گئی ہے ۔
اس موقع پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کا بیان انتہائی اہم ہے انہوں نے کہا ہے کیا امریکا کو بھارت کا نہتے کشمیر وں پر جبر و ظلم نظر نہیں آ تا ۔
عالمی طاقتوں کے کشمیر مسلے پر اکٹھا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اب بوکھلا ہٹ کا شکار ھو چکا اور اسکو کشمیر ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے ، بس گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے کی ضرورت ہے ۔

 امیر حمزہ اردو بلاگ لکھتے ہیں۔ انہوں نے  پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے
 

مصنف کے بارے میں