افسرشاہی اور کار سرکار

افسرشاہی اور کار سرکار

ریاست کا انتظام وانصرام چلانے میں سیاسی انتظامیہ کی تکنیکی معاونت کےلیے سول سروس کا قیام عمل میں لایا جاتاہے۔ سول سروس کے لیے مقابلے کا امتحان منعقد کرکے قابلیت کی بنیاد پر سرکاری ملازمین کا تقرر عمل میں لایا جاتاہے۔ دنیا بھر میں سرکاری ملازمین سیاسی انتظامیہ کے ماتحت رہتے ہوئے ملک کی تعمیر وترقی کےلیے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتیں بروئے کار لانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایک سرکاری افسر خود کو عوام کا نوکر اور خادم سمجھتا ہے۔ مگر بر صغیر پاک و ہند میں انگریز سرکار نے سول سروس کی بنیاد کچھ اور مقاصد کے تحت رکھی تھی۔ انگریز کو ایسے سرکاری ملازم درکار تھے جو ان کے آلہ کار بن کر عوام پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کریں ۔ انگریز نے ایسی افسر شاہی کی تیاری کےلیے طویل منصوبہ بندی کی۔ انگریز نے جو سکول اور کالجز برصغیر میں قائم کیے وہ کسی تعلیمی انقلاب کےلیے نہیں تھے ۔ انگریز نے جو نصابِ تعلیم رائج کیا اس کا مقصد ہی سرکاری دفاتر کے لیے افسر شاہی کی تیاری تھا۔ لارڈ میکالے نے کہا تھا "ان کے جسم ہندوستانی ہوں گے مگر روح انگریزی ہوگی " ۔


لارڈ میکالے نے ذہنی طور پر غلام قوم تیار کرنا تھی ۔ چنانچہ مغربی تعلیم کا مقصد انگریز سرکار کے آدابِ غلامی سکھا نا تھا تاکہ دیسی لوگ تعلیم کی اصل روح تحقیق و تجربے سے نا بلد اور جدید سائنسی علوم و طرزِ فکر سے عاری رہ جائیں ۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ہم مغربی تعلیم پاتے گئے اور ذہنی غلامی کی دلدل میں دھنستے گئے, کیونکہ انگریز کا نظام تعلیم ہماری یہ ہی تربیت کرتا تھا۔ ہم نے تعلیم پانے کا مقصد سرکاری نوکری کا حصول سمجھ لیا۔ انگریز نے ہمارا شعور بیدار ہونے ہی نہیں دیا مگر ہم مغربی تہذیب وتمدن سے مرعوب ضرور ہوگئے۔ برصغیر کی سول سروس میں شامل ہونے والا ہر شخص کالا انگریز ثابت ہوا, اس نے بڑے فخریہ انداز سے انگریز سرکار سے وفاداری نبھائی اور عوام کو ادنیٰ مخلوق سمجھا اور غلاموں جیسا سلوک روا رکھنا شروع کردیا ۔ وہ سرکاری بابو جنہیں عوام کا خادم بننا چاہیے تھا , وہ خود کو حاکم سمجھنے لگے۔ انگریز نے کار سرکار میں تحکمانہ کردار دے کر ان سرکاری بابوؤں کو طاقت کا نشے سے شناسا کردیا۔ انگریز نے کارکردگی کا معیار عوام کی خدمت نہیں بلکہ سرکار کی چاپلوسی مقرر کیا , جو جتنا چاپلوس نکلا , اسے اتنی ہی مراعات ملتیں ۔ ان سرکاری بابوؤں نے عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینا سیکھا ہی نہیں ۔ انہیں عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی سے کوئی سروکار ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فی الفور نوزائیدہ مملکت پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کی تنظیم نو کا آغاز کردیا ۔ جب آپ نے سول سروس کا آغاز کیا تو آپ سرکاری افسران کے مزاج سے بخوبی آگاہ تھے۔ آپ نے سرکاری افسران کو اپنی اصلاح احوال کی نصیحت کی اور انہیں بتایا کہ اب آپ عوام کے حاکم نہیں بلکہ خادم بنیں , ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ قائداعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی قیادت ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے غلط عناصر کے ہاتھ میں چلی گئ۔ جنہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ازسرنو افسر شاہی کا سہارا لینا شروع کردیا۔ایک مرتبہ پھر قیادت کے فقدان , جمہوری عدم استحکام , آئینی خلاء اور سیاست دانوں کی نا اہلیوں نے امور مملکت ایک مرتبہ پھر افسر شاہی کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح ڈال دئیے اور پاکستان غلط روش پر چل نکلا۔ افسر شاہی کو ایوب خاں , یحیٰی خاں , ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ ادوار میں پنپنے کا بہترین موقع ملا۔ آمروں نے سرکاری افسران کو اپنا دست وبازو بنایا , اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے انہیں ڈھیل دی۔ آمروں کی دیکھا دیکھی جمہوروں نے بھی یہ ہی روش اختیار کرنا اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے فائدہ مند پایا۔ بدعنوانی اور سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ افسر شاہی کی ملی بھگت کے بناء نا ممکن تھی۔ ہم اکثر لفظ " اسٹیبلشمنٹ " سنتے ہیں تو جناب اسٹیبلشمنٹ کی دو شاخیں ہیں ایک ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور دوسری سول اسٹیبلشمنٹ ۔ اختصار کے ساتھ زیر بحث سول اسٹیبلشمنٹ کی بات کرتے ہوئے عرض کرنا چاہوں گی کہ ہمارے جمہورے بھی برسراقتدار آنے , تحفظ اقتدار اور فروغ بد عنوانیات کےلیے ان سول افسران سے ہاتھ ملانا نا گزیر خیال کرتے ہیں۔ تاکہ عوام اور عوامی نمائندگان کو گھاس ڈالنے کی نوبت نا آئے اور عوامی مسائل سے نظریں چرا کر اقتدار کے مزے لوٹے جا سکیں ۔ اب آخر میں انگریز کے نافذ کردہ اس بوسیدہ اور گلے سڑے نظام کی موجودہ شکل کا ذکر کرنا مناسب سمجھتی ہوں۔ اس کی تازہ ترین مثال موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف ہیں , جنہوں نے احد چیمہ سمیت کئ سرکاری افسران کو اپنا آلہ کار بنایا اور ان کی مدد سے اپنے اقتدار اور بد عنوانی کو تحفظ دیا۔ نیب احد چیمہ کی مبینہ بد عنوانی کے تناظر میں موصوف کے خلاف آشیانہ ہاوسنگ اسکیم , اورنج ٹرین , لاہور میٹروبس , روالپنڈی اسلام آباد میٹرو بس , ملتان میٹروبس , نندی پور پاور پلانٹ اور حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹ میں تحقیقات کرنے اور احتساب کے لیے پر عزم ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں افسر شاہی سے ہونےوالا پہلا احتساب ہوگا ۔ چونکہ اس مبینہ بد عنوانی میں اکیلے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور ڈی جی ایل ڈی اے نہیں بلکہ بدعنوان افسر شاہی کا پورا گروہ ملوث ہے۔ لہٰذا عصر حاضر کی اس اشرافیہ کی چیخ وپکار , غم وغصہ سمجھ سکتی ہوں ۔ صرف ایک سرکاری افسر احد چیمہ کی گرفتاری پر وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا سول سیکرٹریٹ کو تالے لگوانا بھی سمجھ میں آتا ہے۔ آخر پنجابی افسر شاہی کا پہلا احتساب جو ہونے جا رہا ہے , اور یہ احتساب وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کےلئے عوامی نمائندگان کو گھاس نا ڈالنے , افسر شاہی سے ملی بھگت کرکےکار سرکار کو چلانے , اور عوام کی خدمت کی بجائے انہیں کیڑے مکوڑے سمجھ کر غلاموں جیسا سلوک کرنے کی قیمت چکانے کا سبب بن سکتا ہے۔


عائشہ نور

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)