سرخیاں ان کی……؟

Dr Fareed Ahmad, Pakistan, Naibaat newspaper, e-paper, Lahore

٭……چیئرمین نئی بات کی طویل جدوجہد کو لَکھ لَکھ مبارکباں۔؟
٭…… اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر مزاج کے لوگ پیدا فرمائے ہیں جو اپنے اپنے مزاج کے مطابق، اپنی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے خود کو "Recognise" کراتے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ چند دن قبل میرے بیٹے اساط احمد چودھری جو میڈیا اینڈ مارکیٹنگ میں BBA کر رہا ہے۔ ایک نامور کالم نگار دوست نے ایک سرکاری تقریب میں پوچھا؟ ”بیٹے کیا بننا چاہتے ہو“۔ اس کا فی البدیہہ جواب تھا محترم چودھری عبدالرحمان…… جس پر ہم سب نے خوشی سے زوردار قہقہہ لگایا۔ بلکہ مجھے تو یقین ہی نہ آیا کہ میرا غیرسنجیدہ بیٹا، ایسا سنجیدہ خواب بھی دیکھ سکتا ہے۔ بہرحال دانا بینا کی محفل جاری رہی مگر میں اسی سوچ میں گم سم رہا کہ کیا واقعی ہی میرا بیٹا، اس ولولے سے زندگی کا ہنر سیکھ لے گا کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔ کیونکہ جس عہدساز شخصیت کا وہ نام لے رہا ہے وہ چودھری عبدالرحمان، جو آج کے مکرم و محترم پروفیسر ڈاکٹر چودھری عبدالرحمان کئی کامیابیوں کے تمغے اپنے سینے پہ سجانے کے بعد اب PBA کو بھی مزید فعال بنانے کا بیڑا اٹھا چکے ہیں اور پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سالانہ انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر نئے ڈائریکٹر منتخب ہو چکے ہیں۔ لہٰذا خوشی سے نہال دل کی لکھ لکھ مبارکاں۔ ایک محنتی، بہادر، باکردار اور ایسی بے مثال مثبت سوچ کی حامل شخصیت کا PBA 
کا ڈائریکٹر منتخب ہونا جن کے علمی و سماجی مرتبے کا میں دل سے معترف بھی ہوں اور جن کی زندگی کے عجیب و غریب موڑوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ انہیں کمال مہارت، حکمت و دانائی کے نئے نئے طریقوں سے حل کرنے کا گواہ بھی ہوں۔ اسی لیے اکثر کہتا ہوں کہ زندگی سے بھرپور طوفانوں نے ان کی شخصیت کو ایک الگ ہی رنگ دے دیا ہے۔ لہٰذا یہ میرے لیے بھی کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ایک معتبر تنظیم نے ایک معتبر شخصیت کا انتخاب کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اب اس کی تہذیبی روایات نہ صرف پروان چڑھیں گی بلکہ قومی تعمیروترقی اور سماجی علمی و حِلمی ترقی میں بھی تاریخی کردار ادا کریں گی۔ میری خوشیوں سے لبریز ان لمحات میں دلی دعا ہے کہ میرے استاد معظم، جناب پروفیسر ڈاکٹر چودھری عبدالرحمان نئے نئے موسموں کے کھلتے گلابوں اور محبتوں کی برستی پھوار میں لمحہ لمحہ بھیگتے رہیں۔ اور نئی نئی کامیابیاں سمیٹتے رہیں۔ آمین! کسی شاعر نے کہا تھا۔
موجیم کہ آسودگی ما عدم ماست
ما زندہ بہ انیم کہ آرام نگیریم!
(ترجمہ) ”ہم لہر کی طرح ہیں اور ہمارا آسودہ (چین) سے ہونا ہماری موت ہے۔ ہم زندہ اسی طرح رہ سکتے ہیں کہ آرام نہ کریں“۔
٭…… کالعدم جماعت سے معاہدہ طے……!
٭……  الحمدللہ، قوم بحرانی کیفیت سے نکلی۔ ہر کسی نے سکھ کا سانس لیا اور دونوں فریقوں کے درمیان معاملات طے پا گئے۔ نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا کہ میں جنگ ہار سکتا ہوں لیکن وقت ضائع نہیں کر سکتا۔ لہٰذا خدا کا شکر ہے کہ اس حساس ترین معاملہ میں کسی کی فتح یا شکست نہیں ہوئی اور معاملہ فہموں نے مفاہمت کی پالیسی اور صلح جوئی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے قوم کو شدید نقصان و ہیجان سے بچا لیا۔ اسی میں ہی ہماری قومی بقا اور سلامتی کا راز پوشیدہ ہے۔ لہٰذا حکومت وقت کی انتھک محنت، حکمت جبکہ ٹی ایل پی کی فہم و فراست کے نتیجے میں مثبت نتائج نکلے۔ جس پر دونوں فریقین کو نہ صرف شاباش پیش کرتا ہوں بلکہ ہاتھ جوڑ کر اپیل بھی کرتا ہوں کہ غیراسلامی معاشروں میں انسانی رشتوں کا احترام ہے نہ ہی کوئی مقام…… مگر ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ملک اسلامی پاکستان ہے۔ اس لیے ہمارا ہر قدم پاکستان کے لئے اٹھنا چاہئے۔ ہمارے دلوں میں ہر پاکستانی کا احترام اور مقام اس قدر بدرجہ اتم موجود ہونا چاہئے کہ کوئی سازش ہمیں بہلا پھسلا نہ سکے۔ ویسے بھی اگر ہم سڑکوں پر بہنے والے لہو کو اپنے روحانی باپ قائداعظمؒ کا لہو نہیں سمجھتے تو پھر ہمیں پاکستانی کہلانے کا بھی حق نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے رشتوں اور جذبوں کو کچلنے کے بجائے دشمن کی چالوں پر گہری نگاہ رکھنا ہو گی۔ تاکہ کوئی بھی فرد ہمارے دین یا ہمارے ملک کے خلاف منفی پراپیگنڈہ نہ کر سکے۔ اور ہر کوئی یہ تاریخ کا سبق یاد رکھ سکے کہ یہ ملک نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور نظریہ کھانے پینے یا لوٹ مار کرنے اور خون بہانے کا نام نہیں ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے ٹھیک ٹھیک پورے کرتے رہو۔ تاکہ اُخروی سرخروئی سے بہرہ ور ہو۔