بیرون ملک رقم کی واپسی کے حوالے سے پیشرفت پر مطمئن نہیں:چیف جسٹس پاکستان

بیرون ملک رقم کی واپسی کے حوالے سے پیشرفت پر مطمئن نہیں:چیف جسٹس پاکستان
کیپشن: فائل فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ بیرون ملک رقم کی واپسی کے حوالے سے پیشرفت پر مطمئن نہیں اور اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں پرمنی لانڈرنگ کا کیس بنتا ہے۔


سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ عدالت میں پیش ہوئے،ایف بی آر کی جانب سے دئیے گئے نوٹس کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کردی گئیں،رپورٹس سٹیٹ بینک ، اے جی فرگوسن نے جمع کروادیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر نے 100 افراد کو نوٹسز جاری کررکھے ہیں، پاکستانیوں کی یواے ای میں 150 ارب ڈالرزکی جائیدادیں اور بینک اکاونٹس ہیں۔عدالت کو گورنر سٹیٹ بینک شبر رضوی نے بتایاکہ ہمیں یو اے ای حکومت کی معلومات پراحتیاط برتنی ہوگی،125 افراد کونوٹسزجاری کردیئے ہیں،مذکورہ افراد یو اے ای میں جائیداد کے حامل ہیں،گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ اگران لوگوں نے جائیدادوں کا بیان حلفی دیا تو ٹیکس لیا جائے گا، ایف آئی اے اور نیب بھی اس پر کام کر رہے ہیں۔


گورنر اسٹیٹ بینک نے عدالت کو بتایا کہ لندن اتھارٹیز نے 225 لوگوں کی جائیدادوں کی معلومات ایف بی آر کو بھجوائیں جب کہ عدالتی معاون شبر زیدی نے بتایا کہ ایف بی آر نے 300 افراد کو بیرون ملک جائیدادوں پرنوٹس جاری کیے ہیں، زیادہ رقم حوالے کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بیرون رقم کی واپسی کے حوالے سے پیشرفت پر مطمئن نہیں، ایمنسٹی اسکیم کے باوجود رقم اور جائیدادیں باہر پڑی ہیں۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ دبئی اتھارٹی سے کہیں گے جائیدادیں نہ ماننے والوں کے خلاف بے نامی قانون کے تحت کارروائی کریں، جنہوں نے جائیدادیں مان لیں ان سے ذرائع طلب کریں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جوپاکستان میں رہتے ہیں اور باہر جائیداد بناتے ہیں؟ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ آپ کی کمیٹی کے ٹی او آر سادہ ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو پیسہ چوری کرکے باہر لے گئے ہیں۔


چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے اس معاملے پر 5 ماہ پہلے از خود نوٹس لیا لیکن پیشرفت سست ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم میں 2 فیصد ٹیکس رکھا گیا جو بہت کم تھا، انڈونیشیا نے 17 فیصد ٹیکس رکھا وہاں یہ اسکیم کامیاب ہوئی، رپورٹ کےمطابق ایمنسٹی اسکیم سے لگ بھگ 8 ارب ڈالرکی جائیداد ظاہر کی گئی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے طارق باجوہ سے مکالمہ کیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک، تمام لوگ موجودہیں، 100 افراد کے نام دیں باقی کام ہم کرلیں گے، ایف بی آر سے بڑھ کر عدلیہ پاکستان کی اسٹیٹ ہے، اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں پرمنی لانڈرنگ کا کیس بنتا ہے۔
جسٹس عمر نے کہا کہ جنہوں نے نہ صرف یہاں بلکہ باہر اثاثے چھپائے انہیں سزادی جانی چاہیے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ عدالتی احکامات پر28 اگست کونوٹی فکیشن جاری ہوا اور ٹاسک فورس بنادی گئی جس میں ایف آئی اے، نیب، ایس ای سی پی اور وزارت خزانہ کےحکام شامل ہیں، حکومت کی نیت ہے قانون بنایا جائے جس سے غیر ممالک میں پڑی دولت واپس لائی جاسکے، حکومت عوام کے مفاد کو عدالت کی نگرانی میں خود دیکھنا چاہتی ہے، ہنڈی اور حوالہ کے امور پر آج وزیراعظم کو بریفنگ دی جارہی ہے اس لیے عدالت کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے دیکھ لے۔

عدالت نے ہدایت دی کہ جنہیں نوٹسز جاری کیے گئے ان کی فہرست سربمہر لفافے میں پیش کی جائے اور اگر یہ نام افشا ہوئے تو ایف بی آر اور رجسٹرار سپریم کورٹ ذمے دار ہوگا۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی۔