مہنگائی اور عزت کی روٹی کا حصول

Rana Zahid Iqbal, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

اس حکومت کے بار بار تبدیل ہونے والے وزرائے خزانہ نہایت ہی فخر سے اپنی اس کامیابی کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ قومی خزانے میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کبھی پندرہ ارب ڈالر، کبھی اٹھارہ ارب ڈالر، کبھی بیس ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں اور اس طرح ہم نے عوام کے ساتھ کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کر دیا ہے۔ میں معاشیات کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے کے ناتے کسی حد تک یہ عرض کر سکتا ہوں کہ اس ذخیرے میں ہمارا اپنا کمایا ہوا زرِ مبادلہ نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ زیادہ اس میں آئی ایم ایف اور اس جیسے دوسرے ساہو کاروں کا قرض شامل ہے جو آئے روز اپنی من مانی شرائط منوانے کے لئے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں، جب کہ اس کا حصول ہم اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ مانگے تانگے اور قرض کے اس زرِ مبادلہ کو اپنی ملکیت قرار دینے کی جرأت صرف ہمارے معاشی اربابِ اختیار ہی کر سکتے ہیں۔ اسمبلی کے کسی رکن کو اس بارے میں سوال ضرور اٹھانا چاہئے کہ اس زرِ مبادلہ کی حقیقت کیا ہے اور ہمارے خزانے کے یہ جھمکے کہاں سے آئے ہیں اور کیوں آئے ہیں۔ ان کے پیچھے مقصد کیا ہے۔
اس حکومت کو تین سال سے زائد عرصہ ہو چکا، ہم نے اس حکومت میں سیاست کے کئی رنگ دیکھے ہیں اور بھی بہت کچھ دیکھا ہے جس میں مہنگائی اور بے روزگاری سرِ فہرست ہے صرف کاروبار نہیں دیکھا۔ آج کل بے پایاں اور ناقابلِ برداشت مہنگائی نے اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ ہر ایک شہری کو بھی اپنے خزانے کے لئے بیرونی امداد کی اشد ضرورت رہتی ہے بلکہ فوری ضرورت کیونکہ علاوہ روز مرہ کے کھانے پینے کے سامان کے بلوں کی یلغار بھی بدرجہ اتم موجود ہے جس کی بروقت ادائیگی لازم ہے تاکہ جرمانے سے بچا جا سکے۔ اصل بل ہی کیا کم ہوتے ہیں کہ ان پر جرمانہ بھی عائد ہو جائے تو نزع کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔ انتہائی کنجوسی کے باوجود گیس بجلی وغیرہ کے بل توقع 
سے زیادہ آتے ہیں اور جو بل زیادہ وصول ہوتا ہے وہ تو ہو جاتا ہے۔ یہ زیادتی یعنی غلط اضافہ واپس کون کرتا ہے۔ ایسے بل کی چپ چاپ ادائیگی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اونچے طبقے کے ہمارے بڑوں کے لئے یہ بل چونکہ کوئی معنی نہیں رکھتے اس لئے انہیں یہ محسوس ہی نہیں ہوتے۔ یہ احساس صرف ہمارے لئے ہے کیونکہ ایسے احساس کی دولت اور نعمت صرف بے چارے عوام کے حصے میں آئی ہے۔ بازار کی یہی وہ گرانی ہے اور بلوں کی یہی وہ بے رحمی ہے کہ ہر کوئی اپنے خزانے میں اضافے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ مجھے خود ایک کند کاروباری راجپوت ہونے کے ناتے زر اندازی کے ہنر سے محروم ہونے کی سزا مل رہی ہے۔ ہمارے ہاں سب سے برا کام زمین بیچنا ہوتا ہے اگر کوئی زمین فروخت کرتا ہے تو وہ برادری میں قابلِ نفرت فرد سمجھا جاتا ہے مگر میں سوچتا ہوں کہ میں بھی ان قابلِ نفرت لوگوں میں شمار ہو سکتا ہوں تا کہ زندگی آگے چل سکے، مگر یہ سوال اپنی جگہ کہ زندگی کی ضروریات تو مسلسل جاری ہیں۔ مگر کیا عام پاکستانیوں کے پاس اتنے اثاثے ہیں کہ جو بوقتِ ضرورت فروخت کئے جا سکیں۔ عام بے چارے پاکستانی کے پاس تو دو وقت کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں بھلا وہ اثاثے کہاں سے بنائے گا کہ انہیں بیچ کر اپنی مشکلات میں کمی کر سکے۔ 
ہمارے ملک میں تمام تر ذرائع معاش پر صرف چند ہاتھوں کا قبضہ ہے۔ پہلے انہوں نے زمین پر قبضہ کیا اور پھر اس سے حاصل ہونے والے اسباب پر اپنی گرفت ہوس انگیز مضبوط کر لی۔ آج عالم یہ ہے کہ اس ملک کے لوگ عزت کی دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ موجودہ دور میں تو عزت کی روٹی کا سوال نہایت سنجیدہ ہے۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ لفظ عزت کا بذریعہ سادہ مگر پروقار جنازہ دفنا دیا جائے۔ دلیل اس قبر بندی کی یہ ہے چونکہ ہمارے معاشرے میں ضرورت مند کو ضرورت کی کوئی بھی چیز فراہم نہیں ہے، لہٰذا عزت کی تلاش کے اضافی بوجھ کو اٹھائے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ عزت پر منوں مٹی ڈال کے اس کی موت کا اعلان کر دیا جائے۔ سیکڑوں تلاشوں میں سے ایک تو کم ہو گی۔ لیکن ہماری قوم چونکہ خمیری اعتبار سے ماضی پرست ہے، اس لئے اب بھی غالب آبادی کا مسئلہ ایک ہی نظر آتا ہے کہ عزت کی روٹی کس طرح کمائی جائے۔ بھوک اور خوف کی زندگی اللہ کے دو بڑے عذابوں میں سے ہیں۔ اسی لئے دونوں سے بچنے کے لئے اس نے زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے اسے ہمارے لئے مسخر کر دیا کہ ہم اس سے کام لیں۔ ہم سے مراد صرف پاکستانی یا پاکستانی مسلمان نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان ہیں۔ قدرت نے اپنے وسائل اور قوانین کے لازمی نتائج کی مساوی تقسیم سے یہ مسئلہ حل کر دیا۔ اس طرح قوانینِ فطرت در حقیقت طبعی قوانین ہوئے۔ اس لئے زندگی سے متعلق جو کچھ بھی ساز و سامان ہے وہ انہی قوانین کے اتباع سے ملے گا۔ 
ہمارے جیالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت سی قدرتی نعمتیں موجود ہیں لیکن بھرپور نعمتوں سے مالا مال یہ ملک آج محتاج لوگوں کا ملک ہے اور اس کی بہت بڑی وجہ ہمارا حکمران طبقہ ہے جس نے محض وقت گزارا ہے ان نعمتوں کو تلاش نہیں کیا۔ غالباً2015ء کی بات ہے اور میں اس وقت خود مہمانوں میں شامل تھا جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے چنیوٹ کے پاس رجوعہ سیداں میں چین کے تعاون سے سونے کے ذخائر دریافت کئے اور افتتاح کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ یہاں سے اتنی زیادہ مقدار میں لوہا نکلے گا کہ چنیوٹ میں دنیا کی سب سے بڑی سٹیل مل لگائی جائے گی۔ لیکن اس کے بعد ان کا اقتدار تین سال رہا لیکن کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ آج بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔ جب کوشش ہی نہیں کی جائے گی تو پھر قرض حاصل کر کے ہی اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے جا سکتے ہیں، اسی طرح روزگار میں اضافہ بھی نہیں ہو گا تو لازم ہے کہ غریب بے چارہ عزت کی روٹی کی تلاش میں سرگرداں رہے گا جو اسے کبھی میسر نہیں آ سکے گی۔