ضرورت پڑی تو چیف جسٹس سے مزید ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں: شاہد خاقان عباسی

ضرورت پڑی تو چیف جسٹس سے مزید ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں: شاہد خاقان عباسی

اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس سے مزید ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ انصاف میں تاخیر ہو تو وہ انصاف نہیں کہلایا جاتا۔ امید ہے کہ عدلیہ ماضی سے سبق حاصل کرے گی۔

نیو نیوز کے پروگرام ”نیوز ٹاک یشفین جمال کے ساتھ“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات پر چہ میگوئیوں کی ضرورت نہیں۔ میں نے اسمبلی تقریر میں کہا تھا کہ کچھ مشکلات ہیں، اگر یہ مسائل رہیں گے تو پاکستان کے حالات خراب ہوں گے۔ اسی تناظر میں چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی۔ وہ ایک ادارے کے سربراہ ہیں، ان سے کھل کر بات کی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس سے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ مزید ملاقاتوں کی بھی ضرورت ہوئی تو ہوسکتی ہیں۔ ملاقات کے بعد مجھے بھی چیف جسٹس کی مشکلات کا اندازہ ہوا۔ انصاف میں تاخیر ہو تو وہ انصاف نہیں کہلایا جاتا۔ ماضی میں عدلیہ سے غلطیاں ہوئی ہیں، جن سے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، اُمید ہے ماضی سے سبق حاصل کیا جائے گا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اداروں کے درمیان تناﺅ پوری دنیا میں رہتا ہے، لیکن وہاں یہ بریکنگ نیوز نہیں رہتا۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا، اس لیے میں تناﺅ کا شکار نہیں ہوا۔ سینیٹ الیکشن اور چیئرمین سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جس ووٹ کی خرید و فروخت ہوئی ہے، وہ عزت کے قابل نہیں۔ جو لوگ اس کے نتیجے میں ایوانوں کے اندر پہنچے ہیں، ان کا مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ جب لینے اور دینے والا راضی ہو تو اس کے ثبوت نہیں چھوڑے جاتے۔ کئی جماعتوں نے خود کہا کہ ہمارے ارکان خریدے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے اسفندیار ولی خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بار ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی، پورا اصطبل ہی بک گیا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کہا کہ عہدہ چھوڑنے کے بعد ان لوگوں کے نام بھی لے لوں گا جو فروخت ہوئے ہیں۔

”اس عدم اعتماد کا حل کیا ہے؟“ اس سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس کا طریق کار طے کیا جاسکتا ہے کہ جن پارٹیوں کے جتنے ارکان ہیں، ان کی بنیاد پر ہی سینیٹ کی نشستیں رکھی جائیں، خرید و فروخت کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ میں نے وزیر قانون کو کہہ دیا ہے کہ اس پر کام کریں اور قانون سازی کے لیے پیش کریں۔

پیپلز پارٹی کے احتجاج سے متعلق سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جس دن آصف علی زرداری اور عمران خان پریس کانفرنس کریں اور یہ حلفیہ بیان دیں کہ ہم نے ووٹ خریدا ہے نہ بیچا ہے، میں چیئرمین سینیٹ اور الیکشن سے متعلق اپنا بیان واپس لے لوں گا۔

نگران سیٹ اپ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ غیر متنازع شخص کو آنا چاہیے۔ پچھلے نگران وزیراعظم پر بھی درست فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔ ہماری خواہش ہے کہ سیاسی شخص ہی آئے، جس کا ماضی صاف شفاف ہو، میں اس کے لیے پرامید ہوں۔ خورشید شاہ تک کا معاملہ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

حکومت کے خاتمے پر ن لیگ میں تقسیم درتقسیم سے متعلق سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے مخالفین پچھلے تین سالوں سے یہی کہتے نظر آرہے ہیں، لیکن ہم اب تک متحد ہیں۔ چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ ن چھوڑجائیںگے، اس سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار علی خان اور میں پارٹی چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟ شکوے اپنوں سے ہوتے ہیں، امید ہے دور ہو جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ نیب کا کوئی کیس ایسا نہیں ہے جس میں مہینے کے اندر پیشی ہوتی ہو، یہاں روز پیشیاں ہو رہی ہیں۔ کوئی شہادت ایسی نہیں جس پر اسے حقیقت مان لیا جائے۔ میں برملا کہتا ہوں کہ مجھے کوئی توقع نہیں کہ اس نیب عدالت سے نواز شریف کو انصاف ملے گا۔

کشمیر میں ہونے والے ظلم کی تازہ لہر پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم کشمیریوں کی شکایات دور کریں گے، ہم نے ہمیشہ سفارتی اور اخلاقی سطح پر انہیں سپورٹ کیا ہے، اس پر ہمارا اصولی موقف ہے اور اسی پر قائم ہیں۔