تحریک عدم اعتماد … ووٹنگ نہ ہو سکی

تحریک عدم اعتماد … ووٹنگ نہ ہو سکی

8 مارچ کو متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم جناب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی۔ آئین اور قانون کے تحت ضروری تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی زیادہ سے زیادہ 14 دنوں کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اس کو باضابطہ طور پر ایوان میں پیش کرنے کی منظوری اور اس پر بحث کرانے کی کارروائی شروع کرتے اور پھر 3دن کے بعد اور 7دنوں کے اندر اس پر رائے شماری (ووٹنگ) کے عمل کو مکمل کرتے ۔ تاہم آئین پاکستان میں عدم اعتماد کے بارے میں بیان کردہ اس سیدھے سادھے اور آسان لائحہ عمل کو اختیار کرنے کے بجائے سپیکر قومی اسمبلی نے جانبداری برتتے ہوئے اپنے قائد (وزیر اعظم عمران خان) کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو زیادہ سے زیادہ دیر تک زیر التوا رکھنے کے عمل کو ہی اختیار نہ کیا بلکہ حتیٰ الوسع تحریک عدم اعتماد کو ایوان میں پیش کرنے اور اس پر بحث کا آغاز کرانے کے بارے میں تجسس یا غیر یقینی صورت حال کو بھی برقرار رکھا۔ 25مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو سپیکر کے پاس تحریک عدم اعتماد کو ایوان میں پیش نہ کرنے کے حوالے سے ایوان کے ایک مرحوم رکن کے بارے میں دعائے مغفرت کرانے اور حسب روایت قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر کسی دوسری کارروائی کے ملتوی کرنے کا جواز موجود تھا۔ 28مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایجنڈے کے نمبر ون ایٹم کے طور پر سر فہرست تھی۔ ڈپٹی سپیکر جناب قاسم سوری کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ اسے ایوان میں پیش کرنے کے لیے ارکان کی رائے لیں۔ 161ارکان قومی اسمبلی نے کھڑے ہو کر اس تحریک کو ایوان میں پیش کرنے کی حمایت کی تو ڈپٹی سپیکر نے تحریک کے محرک قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو اسے باضابطہ پیش کرنے کی دعوت دی۔ میاں شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بارے میں آئین کے متعلقہ آرٹیکل کا حوالہ دے کر ابھی تحریک ایوان میں پیش کی ہی تھی کہ ڈپٹی سپیکر نے عجلت سے کام لیتے ہوئے اجلاس 31مارچ تک ملتوی کر دیا۔ 
31مارچ شام کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو عام خیال یہی تھا کہ آج وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر باقاعدہ بحث کا آغاز کر دیا جائے گا۔ اپوزیشن اپنے 172یا 173ارکان کے ساتھ ایوان میں موجود تھی کہ اگر سپیکر تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اس کے حق میں مطلوبہ ووٹ (172) سامنے لا سکے۔ تحریک عدم اعتماد پر بحث یا ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی کہ ڈپٹی سپیکر جناب قاسم سوری نے ایوان کی کارروائی صرف 11منٹ تک چلانے کے بعد اسے اتوار 11-30بجے کے لیے ملتوی کر دیا۔ ڈپٹی سپیکر جناب قاسم سوری کی زیر صدارت 11منٹ دورانیہ پر مشتمل قومی اسمبلی کی یہ کارروائی اس لیے دلچسپ رہی کہ انھوں نے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کے ووٹنگ کے مطالبے کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس کے بجائے وقفہ سوالات جاری رکھا۔ اس دوران ڈپٹی سپیکر نے میڈم طاہرہ اورنگزیب ، محترمہ مریم اورنگزیب، شیخ روحیل اصغر اور محترمہ شازیہ مری وغیرہ کے نام بطور سوال کنندہ پکارے اور ان سے سوالات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایک سا جواب دیا کہ ہمارا ایک ہی سوال ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیوں نہیں کرائی جا رہی ، ا سے فی الفور کرایا جائے۔ جناب ڈپٹی سپیکر کے پاس اس سوال کا آسان جواب یہی تھا کہ انھوں نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس 11منٹ تک جاری رکھنے کے بعد اتوار 11-30بجے تک ملتوی کر دیا۔ 
اتوار 3اپریل کو 11-30بجے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا ہے تو کیا اس میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری (ووٹنگ ) ہو سکے گی؟ یہ ایسا سوال تھا جس کا جواب ہاں یا ناں دونوں صورتوں میں دیا جا سکتا ہے۔ ہاں میں اس بنا پر کہ تحریک عدم اعتماد باضابطہ طور پر زیر بحث لانے اور اس پر ووٹنگ کرانے کا مرحلہ28مارچ کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مکمل ہوا تھا۔ جب قومی اسمبلی کے 161ارکان نے کھڑے ہو کر اسے ایوان میں پیش کرنے، ا سے زیر بحث لانے اور اس پر ووٹنگ کرانے کی منظوری ہی نہ دی بلکہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے ا سے باضابطہ طور پر ایوان میں پیش بھی کیا۔ دیکھا جائے تو 28مارچ سے اتوار 3اپریل تک 6دن بنتے ہیں ۔ اس طرح اس پر بحث کرانے کے بجائے ا سے براہ راست رائے شماری (ووٹنگ ) کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔ کہ اب بحث کے لیے زیادہ دن باقی نہیں۔ براہ راست ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کا امکان اس حوالے سے بھی بنتا ہے کہ وزیر اعظم جناب عمران خان بھی جمعرات 31مارچ کی شام کو اپنے خطاب میں اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا اشارہ دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ اچھی طرح دیکھ لیں اور انہیں پہچان لیں جو اتوار کو تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔ عوام نے ان کا آئندہ بائیکاٹ کرنا ہو گا۔ اتوار کو ووٹنگ کا اس لیے بھی امکان ہے کہ اگر ایسا نہ کرنا ہوتا تو پھر چھٹی کے دن یعنی اتوار کو قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا جاتا۔ اتوار کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری اگر نہیں ہوتی تو سوموار کو بہر کیف اس پر رائے شماری کرانا ضروری ہو گی۔ کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو باضابطہ طور پر پیش کرنے کے بعد سات دنوں کے اندر اس پر رائے شماری کرانا آئینی تقاضا تھا جس کی پاسداری سپیکر کے لیے ضروری تھی۔ تاہم قومی اسمبلی کے سپیکر یا ڈپٹی سپیکر سے کچھ بھی بعید نہیں تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کو موخر کرنے یا زیادہ سے زیادہ مہلت حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی حربہ یا طریقہ اختیار کر سکتے تھے۔
وزیر اعظم جناب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری اتوار کو بھی نہیں ہونے پائی تاہم اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ 8مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا نوٹس قومی اسمبلی میں جمع کرانے کے بعد گزرے 24، 25دنوں میں نہ صرف پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بھی بہہ کر نہیں گزر چکا تھا بلکہ ملک کے سیاسی حالات و واقعات میں بھی ایسی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں کہ جناب عمران خان کا وزیر اعظم ہاؤس سے جانا اب اس طرح یقینی ہو گیا تھا جس طرح سورج طلوع ہونے کے بعد روشن دن کا آغاز لازمی ہوتا ہے۔ اتوار کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن بینچوں پر 195 ارکان موجود تھے۔ گویا اگر رائے شماری کرائی جاتی تو تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے لیے 172ارکان کی مطلوبہ تعداد سے کہیں زیادہ ارکان موجود تھے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے تحریک مسترد کرنے کی رولنگ دی تو اسی طرح وزیراعظم کا سمبلی تحلیل کرنے کا قدام بھی غیر قانونی ہے۔

مصنف کے بارے میں