مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

 مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سیاست 90 کی دہائی نہیں بلکہ80کی دہائی کی راہ پر گامزن ہے اسی راہ پر جس نے جنرل ضیاالحق بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کو اقتدار پر قبضہ کا موقع فراہم کیا، عالمی حالات اور ملکی خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روس سے تعلقات بڑھانے کی سزا امریکہ نے بھٹو کو دی،یہ وہ موقع تھا جب پاکستا ن سابق سوویت یونین اور حالیہ روس اور چین کے درمیان بھٹو کے ذریعے پل بن رہا تھا اور امریکہ کو یہ بات گوارہ نہ تھی،نتیجے میں انتخابی دھاندلی کے الزام سے شروع ہونے والا احتجاج تحریک نفاذ نظام مصطفیٰ میں تبدیل ہو گیا،آخر کار الیکشن ہوا ، دھاندلی کے راستے بند ہوئے نہ ہی نظام مصطفٰی نافذ ہو سکا مگر جنرل ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پھر بارہ سال جمہوریت پابند سلاسل رہی،اگر چہ انہوں نے بلدیاتی الیکشن کرا ئے مگر اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہ کئے، غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن کرا کے جمہوریت کو کچھ اور بنا دیا ، ضیاء الحق کی فضائی حادثہ میں ہلاکت کے بعد جماعتی بنیاد پرعام الیکشن ہوئے تو بھٹو کی پیپلز پارٹی کو عوام نے حق اقتدار دیا مگر نواز شریف نے بینظیر کو ملنے والا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا،لہٰذا بینظیر دو سال کا عرصہ بھی حکمرانی نہ کر سکیں،90میں دوبارہ الیکشن کا ڈول ڈالا گیا تو نواز شریف کو اکثریت ملی،سیاسی گرما گرمی مگر عروج پر رہی،نواز شریف نے پیپلز پارٹی کیخلاف احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیوں کی حد کر دی اور اقتدار کے نشہ میں اداروں سے محاذ آرائی شروع کر دی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت بھی مدت اقتدار پوری نہ کر سکی،ایک بار پھر93میں الیکشن کا ڈول ڈالا گیا،اور بینظیر کو عوام نے حق حکمرانی دیا،مگر سیاسی محاذ آرائی میں کمی نہ آسکی،88اور 93میں بینظیر کو ملنے والی حکومت ادھوری تھی کہ پنجاب میں نواز شریف ہی اقتدار میں رہے،یہ حکومت بھی مدت پوری نہ کر سکی اور تین سال بعد 96میں ختم کر دی گئی،انتخابات کا ڈرامہ پھر سے ہوا نواز شریف دوتہائی اکثریت سے اقتدار میں آئے،دوتہائی اکثریت نے ان کو ظل الٰہی بنا دیا،انہوں نے براہ راست ملک کے محافظ ادارے سے محاذ آرائی شروع کر دی،مگر کارگل کو غلطی ماننا اور سارا الزام ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارہ پر دھرنے کی غلطی اور امریکہ کی دوستی ان کو لے بیٹھی ،آرمی چیف کو ان کی وطن سے غیر موجودگی میں سبکدوش کر کے مرضی کا آرمی چیف لانے کی غلطی نواز شریف کو ایوان اقتدار سے سیدھی جیل کی کال کوٹھڑی لے گئی،پھر معاہدہ کر کے جلاوطنی قبول کی،وطن واپسی بھی بینظیر سے معاہدہ کے بعد ممکن ہو سکی۔
77ء سے99ء تک جو ایک دوسرے کو گالیاں دیتے امریکی پٹھو کہتے،غدار ی کا طعنہ دیتے وہ لوگ ذاتی مفاد میں میثاق جمہوریت کے معاہدے میں بندھ کر ایک دوسرے کو خوش آمدید کہنے لگے،مگر اقتدار ملتے ہی دونوں کے تیور بدل گئے،الیکشن مہم کے دوران بینظیر کو شہید کر دیا گیا،پارٹی کی قیادت زرداری نے سنبھالی ،پیپلز پارٹی کے ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ناہل قرار پائے اور راجہ پرویز اشرف نے عہدہ سنبھالا،اگلی باری نواز شریف نے لی،ان کی پارٹی نے عرصہ اقتدار مکمل کیا مگر نواز شریف کو نا اہل قرار دیدیا گیا،شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنوایا گیا،اقتدار کا یہ کھیل میوزیکل چیئر کا کھیل بنا رہا،وجہ ریاستی اداروں سے محاذ آرائی اور مغل بادشاہ بننے کی کوشش تھی،اختیارات سے تجاوز کیا گیا،اداروں میں مداخلت کی گئی خارجہ پالیسی کو تو مذاق بنا لیا گیا،نتیجے میں کسی بھی حکومت کو استحکام میسر نہ آیا،آج پھر وہی گیم ہو رہی ہے،جیسے ہی عمران خان روس کے دورہ پر روانہ ہوئے،ملک میں دہشت گرد حملے ہونا شروع ہو گئے،سیاسی عدم استحکام پیدا کر دیا گیا ،وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد تحریک آگئی،کامیابی کیلئے بولیاں لگیں،مطلوبہ ارکان بھی مل گئے،77اور90والی فلم دوبارہ سے ریلیز کر دی گئی،نتائج کی پروا کئے بغیر،کسی نے ملک و قوم کا نہیں سوچا،سب نے تجوری بھری اور اقتدار کے لالچ میں ہر غیرآئینی اور غیر سیاسی حربہ آزمایا جا رہا ہے ،موجودہ صورتحال کے لئے ہی کسی نے کیا خوب کہا تھا 
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
جنازہ کس کا ہے؟کسے دفنانے کی تیاری ہو رہی ہے؟میت اٹھانے والے کون ہیں؟کس کے کندھوں پر یہ بوجھ ہے اور کون قبر میں مٹی ڈالنے کے انتظار میں ہے؟کسی کو کچھ معلوم نہیں،مفادات کی پٹیاں آنکھوں پر باندھے بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح جدھر ’’چرواہا ‘‘ہانکتا ہے ادھر بھاگے جاتے ہیں،ہماری سیاست اخلاقیات سے عاری ہو چکی ہے،گھوڑا گدھا بننا یا سر بازار نیلام ہونے میں اب کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی،ہر کوئی جمہوریت،سیاست،جمہوری اداروں،عوامی رائے،ووٹ کی توقیر و تقدیس کا قاتل بنا ان کے جنازے اٹھانے پر آمادہ ہے،زبان پہلے پھسلتی تھی اب بگڑ چکی ہے بعض کے تو دہن بھی بگڑ چکے ہیں،کسی نے کہا تھا
زباں بگڑی سو بگڑی تھی
خبر لیجے دہن بگڑا
 یہ شاید زمانے کے نشیب و فراز ہیں کہ سیاست میں گالی دینا بھی معیوب نہیں رہا،ایک دوسرے پر صرف پوائنٹ سکورنگ کیلئے جھوٹے سچے الزامات عائد کرنے میں بھی ہچکچاہٹ نہیں،حالانکہ کسی کی عیب جوئی کرنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں،کسی میں اگر وہ برائی ہے جس کا ذکر کیا جا رہا ہے تو اسے عیب جوئی کہا جائیگالیکن اگرالزام جھوٹا ہو گا تو قذف کے زمرے میں آئیگا، لیکن سیاست اور محبت میں سب جائز قرار دے دیا گیا ہے،گالی گلوچ،الزام تراشی،چور ،ڈاکو ،لٹیرا، ٹیکس چور ،بینکوں سے قرض معاف کرانا،قبضہ گروپ، سرکاری اراضی پر قبضہ،کک بیکس، کمیشن، منی لانڈرنگ کو اب جرم ہی نہیں سمجھا جاتا،نہ ہی ایسے الزامات کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے،جھوٹی قسمیں،جھوٹے وعدے،بے بنیاد دعوے، دوستوں سے دغابازی،دشمنوں کو وقت پڑنے پر باپ بنانا بھی اب سیاست کے گر جانے جاتے ہیں،ہمارے سیاستدانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا،ہر دس بارہ سال بعد یہ لوگ وہی غلطیاں دہراتے ہیں جن کی وجہ سے جمہوریت ڈی ریل ہو جاتی ہے،کسی منتخب حکمران کو پانچ سال حکمرانی کا حق نہ دینے والے پھر پورا عشرہ غیر سیاسی اور غیر جمہوری حکمران کو برداشت کرتے ہیں،تب ان کو جمہوریت کی یاد ستاتی ہے ،میثاق جمہوریت ہوتے ہیں،نئے اتحاد بنتے ہیں،بعد المشرقین نظریات کی حامل جماعتیں،ایک دوسرے کو غدار، ملک دشمن،غیر ملکی ایجنٹ کہنے والے سیاستدان شیر و شکر ہو جاتے ہیں،ایک دوجے کے پیچھے نماز ادا کرنے کو کفر گرداننے والے بانہوں میں بانہیں ڈال کر دعوتیں اڑاتے ہیں،حاصل مقصد صرف ایک ہوتا ہے ایک منتخب حکمران کو ناکام بنا کر گھر بھیجنا اور اپنے اقتدار کیلئے راہ ہموار کرنا۔

مصنف کے بارے میں