منور اسلام ابنِ نادرالقلم

Dr Azhar Waheed, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

خیالات ہوں یا جذبات بنیادی طور لہروں کی شکل میں سفر کرتے ہیں۔ لہریں کہیں سکون اور سکونت میں نہیں ہوتیں۔ خیالات کی لہروں کو منجمد اور محفوظ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ انہیں لفظوں کی صورت میں قلم بند کر دیا جائے۔ خیال‘جب لفظوں کے آئینے میں جھانکتا ہے تو خود کو دیکھ کر اُز خود‘دم بخود ہو جاتا ہے …… ٹھہر جاتا ہے۔ کائنات‘جو ابھی عالم ِ امکان میں تھی‘ بس ایک حرفِ کُن کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے  زمان اور مکان کی صورت میں ظہور پذیر ہو گئی۔ وہ ذات جس نے انسان کو قلم سے علم دیا‘ اُس نے قلم کے لکھے ہوئے لفظ کو یہ شرف بخشا کہ جب لکھا جائے تو اَمر ہو جائے۔ القصہ‘ہر لحظہ مرتعش اور متوحش خیالات اورجذبات جب لفظوں سے وابستہ ہو جائیں تو حالت ِ قیام میں آجاتے ہیں اور آنے والی نسلوں تک قابل ترسیل و ابلاغ ہو جاتے ہیں۔ یہ تمہیدی کلمات ایک خود کلامی کا حصہ ہیں، گزشتہ دنوں میں خود سے دریافت کر رہا تھا کہ منور اسلام کی اچانک وفات حسرت آیات پرمیں کیونکر قلم فرسائی کروں گا۔ فن خطاطی کے حوالے سے اُن کے فنی محاسن آرٹ سے منسلک ماہرین قلم بند کرتے رہیں گے، اُن کی یاد میں تعزیتی اجلاس بھی منعقد ہوں گے، تاریخ کے عجائب گھر کے کسی گوشے اُن کے فن پاروں کی نمائش بھی جاری رہے گی‘ لیکن اُن کی شخصیت کے چند محامد محاسن ایسے ہیں کہ انہیں قلم بند ہونا چاہیے‘ تاکہ تاریخ میں وہ ایک شخصیت کے طور پر بھی محفوظ ہو سکیں۔ ایک قلم کار کی حیثیت سے یہ مجھ پر فرض بھی تھا اور قرض بھی کہ ُان کی شخصیت کے لطیف پہلوؤں پر قلم اٹھاؤں، مبادا ایک نادرِ روزگار شخصیت عمومیت کی خلاؤں میں گم شد ہو کر رہ جائے۔ 
میرے ماموں منور اسلام‘نانا عبدالواحد نادرالقلم کے واحد فرزند تھے۔ فنِ خطاطی میں صحیح معنوں میں اُن کے قلمی جانشین‘خط ِ دیوانی پردسترس رکھتے تھے۔ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، میری والدہ سب سے بڑی ہیں‘ اُن سے دو برس چھوٹے تھے لیکن والدہ بھی انہیں بھائی کہہ کر پکارتیں۔ بھائی لفظ معلوم نہیں کب سے ”بائی“ بن گیا۔ ہم نے بچپن سے اپنی خالاؤں سے انہیں ”بائی“ کہتے ہی سنا ہے۔ چنانچہ اسی نسبت سے وہ ہم سب کے”بائی ماموں“ ہو گئے۔ اَمّی اورخالاؤں کا طرزِ تکلم دیکھ کر میری بہنیں بھی مجھے”بائی“ کہنے لگیں اور یوں ہم بھی اپنے بھانجوں اور بھانجیوں کے”بائی ماموں“ بن گئے، گویا ہمیں بھی آج کل ویسے ہی ماموں بنایا جا رہا ہے۔
  فنِ خطاطی و مصوری میں داخل ہونے کی اِن کی داستان عجب ہے، ماموں نے جب نانا سے باقاعدہ شاگردی کی درخواست کی تو باپ نے بیٹے سے وعدہ لیا کہ تصویر نہیں بناؤ گے، تمہارا قلم اور برش صرف قرآنی آیات کے لیے وقف ہوگا۔ اس وعدے کو ماموں نے عمر بھر ایفا کیا۔ میں سمجھتا ہوں 
کہ ماموں نے قرآنی آیات کے حوالے سے جو کام کیا‘ وہ نانا کے حق میں ایک صدقہ جاریہ بن چکا ہے۔ اوائل میں اپنے والد کے’زیرِ سایہ‘ہی رہے، خود کو ایک الگ شناخت دینے کی کوئی کاوش نہیں کی۔ ایک نمائش کے موقع پر انہوں نے دیگر فنکاروں سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں نادرالقلم صاحب کا بیٹا ہوں، یہ سن کر نانا کے ایک آرٹسٹ دوست نے کہا”میاں! یہ کیا تعارف ہوا کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں، تمہارا تعارف کہاں ہے“ ماموں بتاتے ہیں کہ یہ بات سن کر میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ فن کی دنیا میں اپنا ایک الگ تشخص بناؤں گا۔ نانا کی پہچان خط ِ نستعلیق تھی‘ انہوں نے اپنے لیے خطِ دیوانی کا انتخاب کیا، اساتذہ سے استفادہ کیا اورکسب ِ کمال کیا۔ دو سو سے زاید فن پاروں پر مشتمل ان کی پہلی سولو نمائش الحمرا میں یکم جنوری 2000ء میں منعقد ہوئی۔ باپ کی میراث کا بیٹے کو منتقل ہونا ایک نادر واقعہ ہوتا ہے۔ 
میرے ماموں ایک کشادہ دل آدمی تھے۔ کسی کے خلاف نفرت، بغض، کینہ اور حسد ایسے جذبوں سے یکسر نا آشنا تھے۔ تلخ ہونا تو دُور کی بات ہے‘ انہیں کبھی تُرش ہوتے نہیں دیکھا۔ دریا دل تھے،انہیں کبھی بخل سے کام لیتے نہیں دیکھا گیا۔ مہمان نواز کمال کے تھے، مہمان کی عزت کرنا جانتے تھے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پر اُن سے نالاں ہوں لیکن وہ خاندان میں کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوئے۔ فن کی میراث بھی یونہی میسر نہیں آتی، اس کے لیے بھی قدرت اعلیٰ ظرف انسانوں کا انتخاب کرتی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ  ہر فنکار میں ایک اچھا انسان، ایک چھوٹا سا درویش چھپا ہوتا ہے، اس میں ایک صوفی مزاج روح پنہاں ہوتی ہے۔ خندہ پیشانی اور فراخ دلی ان کی شخصیت کاخاص جوہر تھا۔ ایک نفیس حسِ ظرافت کے مالک تھے۔ 
ماموں نے عشرت اور عسرت دونوں کا ذائقہ چکھا۔ خاندان میں پہلی گاڑی اُن کے پاس تھی، سب سے پہلے اُن کے گھر میں ٹیلیفون کی تار بچھی تھی، آج کے موبائل نوجوان شاید اس بات پر تعجب کا اظہار کریں لیکن میری عمر کے لوگ جانتے ہیں کہ اُس دَور میں کسی  کے گھر فون انسٹال ہونا‘ اُس کے صاحبِ ثروت کی نشانی ہوا کرتی۔ پورے محلے میں شاذو نادر ہی کسی کے ہاں فون ہوتا، پھر اُس کا گھر پورے علاقے کیلئے ایک ٹیلیگراف آفس کاکام کرتا۔ نایابی کے اُس دَور میں اُن کے نام پر تین تین فون کنکشن تھے۔ ایک دن میں نے پوچھا‘ ماموں جی! تین فون لائینوں کا کافی بل آ جاتا ہوگا، اپنے روایتی لابالی انداز میں کہنے لگے‘ کوئی بات نہیں، کلائنٹ نے ہی بل دینا ہے۔  کاروبار میں زوال بھی آیا، یوں عسرت کے دَور سے بھی گزرے‘ لیکن مہمان نوازی میں اپنی وضع پر قائم رہے۔ ممانی کا انتقال ہوا تو بچے ابھی چھوٹے تھے، تقریباً ستائیس برس اکلاپے کے کاٹ لیے، دوبارہ شادی نہیں کی، حالانکہ فن کاروں کے حلقے میں فن اور فنکار کے چاہنے والوں اور والیوں کی چنداں کمی نہیں ہوتی۔ ایک بیوی پر قناعت کرنا‘ بعد اَز مرگ بھی اُس سے وفا کرنا‘ میرے نزدیک اُن شخصیت کا ایک انتہائی مثبت پہلو ہے۔
ماموں بھانجے کے تعلق کے علاوہ بھی میرے ساتھ ایک دوستی کے تعلق میں تھے، میرا ہر کالم بغور پڑھتے اور سراہتے۔ البتہ میری گوشہ نشینی پر مجھ سے شکوہ کناں رہتے،مجھے کہتے کہ منظر ِ عام پر آؤ، ادبی حلقوں میں نظر آؤ، تم نے خود کو کلینک کی آڑ میں چھپایا ہوا ہے‘ اُن کی یہ مشاورت اپنی جگہ درست ہونے کے باوجود میرے لیے قابلِ عمل نہ تھی کہ میرا نصابِ زیست کسی اور جگہ سے مرتب ہو چکا تھا۔ ملاقات میں دیر ہو جاتی تو بار بار کال کرتے، گھر آنے کی  دعوت دیتے۔ اُن کی دعوت پر کسی فنکشن میں نہ پہنچ پاتا تو ہرگز گلے شکوے کا اظہار نہ کرتے، بلکہ فراخ دلی سے عذر قبول کرتے۔ میری ہر کتاب کی خصوصی پذیرائی کی۔ نئی شائع ہونے والی کتاب پیش کرتا تو کہتے‘ مجھے پچاس ساٹھ کاپیاں چاہئیں، مجھے اپنے باذوق دوستوں کو تحفے میں دینی ہے۔ سہ ماہی”واصفؒ خیال“ کا ہر شمارہ مانگ کر لیتے اور اپنے حلقے میں تقسیم کرتے۔ ایک مرتبہ اُن کے ہاں جانا ہوا، دیکھا کہ ایک سفید کینوس کے فریم میں پنسل سے کچھ دائروں کی کشش کھینچنے میں منہمک تھے، دائروں کے اندر دائرے تھے، میں سمجھ گیا حروفِ مقطعات کی خطاطی کا سکیچ بن رہا ہے۔ اِن دائروں میں کچھ ایسی کشش تھی کہ آنکھ جھپکنا بھول گئی۔ میں نے فوراً فرمائش کر دی”یہ پینٹنگ میری ہوئی“۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرگیا، میں سمجھا‘ بھول گئے ہوں گے، عین ممکن ہے‘ اُن کے کسی قدر دان نے بھاری بھرکم ہدیہ دے کر فن پارہ خرید لیا ہو۔ ایک دن اچانک کلینک تشریف لائے، کاغذوں میں لپٹی ہوئی ایک خوبصورت فریم میں سبز کینوس کی وہی پینٹنگ میرے سامنے رکھ دی۔ میں حیرت میں گم! کہنے لگے‘ اِسے تیار کرنے میں ایک سال سے زیادہ عرصہ لگا ہے۔ یہ فن پارہ آج بھی کلینک پر آویزاں ہے‘ اس شاہکار کو میں نے اپنی کتاب”حرفِ آغاز“ کا سرورق بنا لیا۔   
 ماموں زاد سلمان نیّر بتاتا ہے کہ مرتے وقت اُن کے دائیں ہاتھ کی چاروں انگلیاں اور انگوٹھا آپس میں اس طرح ملے ہوئے تھے‘ جیسے کسی برش کو پکڑنے لگے ہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول کانوں میں گونج رہا ہے کہ مرتے ہوئے تم جس خیال میں ہو گے‘ اُسی خیال میں اُٹھائے جاؤ گے۔ منور اسلام آخری روز دُرودِ پاک کی خطاطی میں مصروف تھے۔ دُعا ہے کہ مابعد میں بھی قرآن کی آیات کی خطاطی سے اُن لگن کو صاحب ِ قرآنؐ پذیرائی بخشیں‘ اپنے دامن رحمت میں جگہ دیں اور اپنی شفاعت سے بہرہ مندفرمائیں۔