عمران خان کی پیش کش کا مثبت جواب

عمران خان کی پیش کش کا مثبت جواب

عمران خان کی جانب سے مثبت اشارے آ رہے ہیں اور یہ جمہوریت اور خود ان کی پارٹی کے لیے ایک اچھی بات ہو گی۔ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لیے جگہ بناتی ہیں اور معاملات کو اختلاف رائے تک رکھتی ہیں اسے سیاسی دشمنی میں تبدیل نہیں کرتے۔ ملک کی دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے قائدین بھی فوجی گھی کی چوری کھا کر جوان ہوئے تھے مگر آہستہ آہستہ ان میں میچورٹی آتی گئی اور حالات انہیں اس جانب لے گئے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوتے گئے۔ آج دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کی حلیف ہیں۔ کل تک یہی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی کرپشن کے قصے لہک لہک کر سناتے تھے۔ ایک دوسرے کی حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے فوجی اشرافیہ سے ڈیل کرتے تھے۔ نوازشریف اور بے نظیر نے فوج کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں پھر حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ دونوں جلاوطن ہوئے تو انہیں ہوش آیا کہ ہمیں تو اشرافیہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ اس کے بعد ان کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا اور نوازشریف اور بے نظیر دونوں بہن بھائی بن گئے۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو نوازشریف نے باوجود اس کے کہ پارٹی کے دھڑے کچھ اور خواہش کر رہے تھے انہوں نے پانچ برس انتظار کیا اور الیکشن کے ذریعے اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ مشرف دور میں ہی اشرافیہ کو یہ سمجھ آ گیا تھا کہ یہ دونوں جماعتیں وقت کے ساتھ میچورٹی دکھا رہی ہیں اور مستقبل میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی تو انہوں نے تیسری قوت کے طور پر عمران خان کی پرورش کرنے کا فیصلہ کیا۔ پروجیکٹ عمران خان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس کے تحت عمران خان کا امیج بنانا شروع کیا اور ملک میں ایک ہوا چلائی گئی کہ ان دونوں کو تو دیکھ لیا اب عمران خان کو ٹرائی کرنا چاہیے تاکہ ملک بہتری کی طرف جا سکے۔ ایک منصوبے کے تحت یہ فضا بنائی گئی کہ یہ سب چور ہیں عمران خان کو حکومت میں لایا جائے تو وہ ملک کی قسمت سنوار دے گا۔ اس طبقے نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ایک موقع جماعت اسلامی کو بھی دے دیں وہ ملک میں انقلاب برپا کر دے گی۔ ساری توانائیاں اور وسائل پروجیکٹ عمران خان میں جھونک دیے گئے اور بقول مونس الٰہی جنرل باجوہ نے تو تحریک انصاف کی محبت میں دریاؤں کے رخ موڑ دیے۔ پیپلز پارٹی کی آمریت کے خلاف جدو جہد کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ نوازشریف نے بھی عوامی حکمرانی کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ تحریک انصاف نے ابھی جدوجہد کا مزا چکھنا ہے۔ وہ تو شہباز گل اور اعظم سواتی کی گرفتاری پر اپنے اوسان خطا کر بیٹھے ہیں اگر وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوں گی تو ان کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ لاہور میں پیپلزپارٹی کے بہت بھرپور جلسے ہوتے تھے۔ اعتزاز احسن لاہور کی سیٹ سے ہی جیت کر وزیر داخلہ بنے تھے۔ جہانگیر بدر وزیر بنے تھے۔ بھٹو کے دور میں تو لاہور تھا ہی پیپلزپارٹی کا لیکن بے نظیر کے دور میں بھی لاہور میں پیپلزپارٹی اپنی سیٹیں نکالتی تھی۔ بے نظیر بھٹو لاہور تشریف لاتیں تو سینیٹر گلزار کے گھر قیام کرتیں اور وہاں میڈیا سے گفتگو ہوتی۔ آج لاہور میں پیپلزپارٹی ایک بھی سیٹ نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تحریک انصاف کو سبق سیکھنا چاہیے ورنہ اس کا شیرازہ آہستہ آہستہ بکھر جائے گا جب لوگوں کو یہ احساس ہو جائے گا کہ اب اس جماعت پر محکمہ زراعت کا دست شفقت نہیں ہے۔
بدقسمتی سے ملک کی سیاسی جماعتیں فوجی آمریت کے چھتری تلے پروان چڑھی ہیں لیکن یہ معاملہ پیپلزپارٹی کے ساتھ نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی پر الزام لگایا جاتا ہے مگر تاریخی حقائق اس سے مختلف ہیں۔ یہ درست ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کے وزیر خارجہ تھے اور انہیں ڈیڈی کہتے تھے لیکن یہ بھی سچ ہے انہوں نے ایوب خان سے اختلاف کیا، استعفیٰ دے کر حکومت سے الگ ہوئے اور پھر اپنی سیاسی جماعت بنا کر جدوجہد کا آغاز ہوا۔ 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی اور پاکستان ٹوٹنے کے بعد اس ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے بھی بہت سی سیاسی غلطیاں کیں اور اپنے مخالفین کو نشانہ بنایا اور بالآخر ضیا الحق نے اقتدار سنبھال لیا اور بعد ازاں عدالتی قتل کے ذریعے ان کو گڑھی خدا بخش میں دفن کر دیا گیا۔ ضیا کے مارشل لائی دور میں بے نظیر کی سیاسی جدوجہد ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تحریک انصاف بھی ایک سیاسی جدوجہد کا آغاز کریں اور عوامی بالادستی کے اصول پر کاربند ہو کر عوام کو ساتھ ملانے کی کوشش کریں۔ سیاسی رویوں کے ذریعے ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کریں۔
عمران خان نے حکومت کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔ انہوں نے اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ اپنے بیانیے سے رجوع کیا ہے۔ اس حکومت کے خلاف کو مضبوط بیانیہ انہوں نے گھڑا تھا غیر محسوس طریقے سے وہ اس سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور واپس جمہوری ڈگر پر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی جمود کا شکار نہیں ہوتی مگر عمران خان چونکہ مضبوط کندھوں پر سوار تھے اس لیے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن اب انہیں احساس ہو رہا ہے کہ دست شفقت اٹھ چکا ہے۔
عمران خان اگر مذاکرات کی بات کریں تو حکومت اور ان کے اتحادیوں کے لیے یہ مشکل ہو گا کہ وہ اس سے انکار کر سکیں۔ حکومت اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو گی لیکن عمران خان بھی ان مذاکرات کے ذریعے جلد از جلد انتخابات کی تاریخ چاہتے ہیں تاکہ سیاسی نقصان سے بچا جا سکے۔ انہیں یہ علم ہے کہ ریت کا یہ گھروندا کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتا ہے۔
ملک کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے مذاکرات کی اس پیش کش کے جواب میں کہا ہے کہ میں ذاتی طور پر اس بات کا حامی ہوں کہ مذاکرات یا گفتگو سے انکار پارلیمانی جمہوری نظام میں ممکن نہیں ہے۔ عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی کی تحلیل کو ایک بارگینگ چپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ جلد انتخابات کہ تاریخ کا اعلان کریں ورنہ وہ یہ دونوں اسمبلیاں تحلیل کر کے سیاسی بحران پیدا کر دیں گے۔
پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ چار ماہ سے جاری ہے اور اس کا مقصد کوئی قانون سازی نہیں ہے بلکہ حکومت کو بچانے کے لیے تحریک عدم اعتماد سے بچنا ہے اور ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو ایسی صورت میں گورنر راج بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مکمل اختیار عمران خان کو دے دیا ہے کہ وہ جب حکم کریں گے تو اسمبلی تحلیل کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی جائے گی۔
دوسری طرف حکومت بھی مخمصے کا شکار ہے۔ حکومت کی ترجمانی کے فرائض عطا اللہ تارڑ اور مریم اورنگ زیب کے پاس ہیں اور دونوں کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما تحریک انصاف اور پرویز الٰہی کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنے کے حامی ہیں۔ شہبازشریف بھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر چلنا چاہتے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق عمران خان کی پیشکش کے فوراً بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے حکمراں جماعت مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی اور فیصلہ کیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی موجودہ صوبائی حکومتوں کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا کوئی عقلمندانہ اقدام نہیں ہوگا۔ اس ملاقات میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کو مسترد نہیں کیا گیا تاہم یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کا اختیار وہاں کے وزیراعلی کو حاصل ہے اور وفاقی حکومت خود یہ تسلیم کر رہی ہے کہ وہ ہر حال میں ان اسمبلیوں کو بچانے کی کوشش کریں گے لیکن وہ کون سا طریقہ ہو گا جس کے تحت وزیراعلیٰ کو اس کام سے روکا جا سکتا ہے۔ عدم اعتماد لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ گورنر راج کا نفاذ بھی اتنا آسان نہیں۔ ماہرین اس بات پر بھی متفق نہیں ہیں کہ کیا اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو گورنر وزیراعلیٰ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اگر مذاکرات کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ہے تو حکومت کو ان کے ساتھ انگیج ہونا چاہیے۔ جب ملاقاتیں ہوں گی تو کئی راستے نکل سکتے ہیں۔ عمران خان نے اپنی ضد اور انا کو ایک طرف رکھ کر مذاکرات کے لیے کہا ہے تو اس پر بات چیت کے دور کا آغاز ہونا چاہیے تاکہ غیر جمہوری قوتوں تک یہ واضح پیغام جائے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر قومی مسائل پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ اگر حکومت میثاق معیشت کے لیے تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دے سکتی ہے تو آئندہ انتخابات پر ان کی مذاکرات کی تجویز سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔