احوال ایک یادگار تقریب کا ۔۔۔!

احوال ایک یادگار تقریب کا ۔۔۔!

گزشتہ بدھ کی شام کو اکادمی ادبیات اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں معروف دانشور، صاحب اسلوب نثر نگار، مصنف، کالم نگار، خوبصورت شاعر اور مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر پروفیسر عرفان صدیقی کے حال ہی میں شائع ہونے والے پہلے شعری مجموعے "گریز پا موسموں کی خوشبو" کی تقریب پذیرائی کا انعقاد ہوا۔ اکادمی ادبیات کا نو تعمیر وتزئین کردہ کشادہ کانفرنس ہال فیض احمد فیض آڈیٹوریم حاضرین و سامعین سے اگر کھچا کھچ نہیں تو معقول تعداد میں بھرا ہواتھا۔ حاضرین و سامعین میں ہر شعبہ زندگی بالخصوص علم و ادب، تعلیم و تعلم اور شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے حضرات و خواتین نمایاں تھیں۔ اس تقریب کے انعقاد کا پروگرام کچھ ہی دن پہلے طے پایاتھا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سابقہ منیجنگ ڈائریکٹر، معروف شاعر اور مصنف ڈاکٹر انعام الحق جاوید جو اس وقت وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں مشیر و کنسلٹنٹ تعینات ہیں اور ادبی تنظیم پروار کے صدر بھی ہیں نے ایک دوسری ادبی تنظیم زاویہ کے صدر محبوب ظفر اور اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک کے تعاون سے اس تقریب کے انعقاد کا اہتمام کیا۔ انہیں اس ضمن میں معروف سماجی اور فلاحی شخصیت اور قمر جہاں فاؤنڈیشن و سٹی لیب کے مدارلمہام ڈاکٹر جمال ناصر کا ہر طرح کا تعاون بھی حاصل تھا۔
ہفتہ عشرہ قبل کی ملک کی سیاسی اور خلفشار کی صورتحال میں اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ کہیں اسلام آباد کے راستے بند ہونے کی وجہ سے تقریب کا انعقاد ہی خطرے میں نہ پڑ جائے۔ لیکن کہتے ہیں کہ جہاں لگن اور جذبہ صادق ہو وہاں پھر خدشات اور خطرات معدوم ہو جاتے ہیں۔ پھر شاید یہ عرفان صدیقی کی ہر دلعزیز، روشن، قابل قدر اور خوبصورت شخصیت کا اعجاز تھا کہ ان کے اولین شعری مجموعے "گریز پا موسموں کی خوشبو"کی تقریب پذیرائی منعقد ہی نہ ہوئی بلکہ ایسے منعقد ہوئی کہ مدتوں یاد رہے گی۔ بلا شبہ یہ ایک یادگار، شاندار، باوقار اور خوبصورت تقریب تھی جس میں سامعین و حاضرین کی اکثریت تقریب کے اختتام تک جہاں ہال میں موجود رہی وہاں حاضرین نے مقررین کے خیالات کو پوری دلجمعی، دلچسپی اور ذو ق و شوق سے سنا ہی نہیں بلکہ کھل کر داد بھی دی۔ تقریب کی صدار ت مقتدرہ قومی زبان کے سابق صدر نشین، بزر گ شاعر، مصنف اور دانشور جناب افتخار عارف نے کی تو مہمانان ِ خصوصی ہونے کا اعزاز، شعرو شاعری اور تعلیم و تدریس کی ممتاز شخصیات پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر اور پروفیسر جلیل عالی کے حصے میں آیا، جب کہ اکادمی ادبیات کے جواں فکر چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک اپنے ادارے کی طرف سے بطور میزبان اظہار تشکر کے لئے سٹیج پر موجود رہے۔ تقریب کی نظامت کے فرائض رباب تبسم نے بطریق احسن سر انجام دیئے۔
تقریب میں صدر مجلس جناب افتخار عارف، صاحب کتاب جناب عرفان صدیقی، مہمانانِ خصوصی ڈاکٹر احسان اکبر و پروفیسر جلیل عالی، میزبان و منتظمین ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے جہاں اظہار خیال کیا وہاں دیگر اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر راؤف پاریکھ، ڈاکٹر فہمیدہ تبسم، ڈاکٹر حمیرہ اشفاق، جناب فواد حسن فواد، ڈاکٹرجمال ناصر اور راقم (ساجد ملک) بھی شامل تھے۔ محترم ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے اظہار خیال کا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے پنڈی سے اسلام جاتے ہوئے فیض آباد میں ٹریفک کے ہجوم کی وجہ سے تقریب میں پہنچنے میں 15/20منٹ کی تاخیر ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے میں ڈاکٹر انعام الحق کا خطاب نہیں سن سکا۔ میں ہال میں داخل ہوا تو اس وقت محترمی ڈاکٹر جمال ناصر کو خطاب کی دعوت دی جارہی تھی۔ ڈاکٹر جمال ناصر بلاشبہ ایک مشاق مقرر اور صاحب علم و صاحب مطالعہ شخصیت ہیں۔
ڈاکٹر جمال ناصر کے بعد اظہار خیال کی میری باری تھی۔ میں نے عرفان صاحب سے اپنی دیرینہ رفاقت کا حوالہ دیتے ہوئے ڈرتے ڈرتے اس بات کا ذکر کیا کہ مجھے یہ فوقیت حاصل ہے کہ میں عرفان صاحب کے اس مجموعے میں شامل بہت ساری نظموں کا اولین سامع بھی کہلوا سکتا ہوں۔ میرے بعد عزیزی مکرم و محترم فواد حسن فواد کا خطاب بلا شبہ بے مثال ہی نہیں تھا بلکہ اس کو زبردست پذیرائی بھی ملی۔ فواد حسن فواد کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔ وہ سینئر ترین بیورو کریٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ عرفان صاحب سے ان کا پانچ دہائیوں سے احترام و محبت کا رشتہ قائم ہے۔ انہوں نے کالج کے دور میں نہ صرف ہماری تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیں بلکہ اس کے بعد کے ادوار میں بھی ہماری سرپرستی جاری رکھی۔
فواد صاحب کے اظہار خیال کے بعد ڈاکٹر راؤف پاریکھ، ڈاکٹر فہمیدہ تبسم اور ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے یکے بعد دیگرے اپنے خطاب کیا۔ ڈاکٹر پاریکھ نے عرفان صاحب کی شاعری کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سچائی کے تمام موسم ان کی کتاب میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ تبسم جو سٹیج پر مہمانان ِ گرامی کے جلو میں موجود تھیں انہوں نے عرفان صاحب کی خوبصورت طویل نظم "اکثر سوچتا ہوں "کی لائنیں پڑھ کر سنائیں۔ عرفان صاحب نے یہ طویل نظم 26جولائی 2019کی نصف شب پولیس کے ہاتھوں اپنی گرفتاری، تھانے لے جانے، ہتھکڑی لگانے اور اڈیالہ جیل کی قصوری چکی میں ڈالنے کی تلخ یاد میں کہہ رکھی ہے۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے عرفان صاحب کی شاعری کا اپنے انداز میں تنقیدی جائزہ لیا اور کہا کہ اس میں تصور وقت کا حوالہ نمایاں ہے۔ تقریب کے مہمانان خصوصی میں شامل مشہور شاعر پروفیسر جلیل عالی جو سرسید کالج راولپنڈی میں عرفان صاحب کے رفقاء میں شامل تھے انہوں نے ان کے ساتھ کالج کے دور کی اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ عرفان صدیقی اچھے شاعر ہونے کے ساتھ بہت اچھے ڈرامہ نگار، کالم نگاراور تقریر نگار بھی ہیں۔ ان کی شاعری کی جہتیں ہیں جن میں رومانس ایک رویہ کے طور پر سامنے آتا ہے۔ مہمانان خصوصی میں شامل پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبرنے عرفان صاحب کی منتخب نظموں کا حوالہ دے کر ان کی شاعری کی فنی و فکری بلندی اور شعری حسن کی تعریف کی۔
آخر میں صدر مجلس جناب افتخار عارف، صاحب کتاب عرفان صدیقی اور اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے بھی خطاب کیا۔ جناب افتخار عارف نے اپنے انتہائی اثر انگیز اور خوبصورت خطاب میں کہا کہ عرفان صدیقی کے شعری مجموعے کا حصہ اول نظموں پر مشتمل ہے، یہ نظمیں ایک کہانی بیان کرتی ہیں جو محبت کے سارے موسموں پر محیط ہے۔ ان میں جذبے کی شدت اور احساس کا وفور پہلے مصرعے سے آخری مصرعے تک، عہدو پیماں کے مہربان موسموں سے، ہجر وفراق کے الم انگیز زمانوں تک سارا ماحول افسانہ در افسانہ بیان ہوا ہے۔ جبکہ غزلوں کا مزاج، احتجاج، انکار، اضطراب اور مزاحمت کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفا عرفان صاحب کی سرشت میں شامل ہے جس کا پرتو ان کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے۔
محترم عرفان صاحب نے اپنے خطاب میں جہاں حاضرین کا شکریہ ادا کیا وہاں انہوں نے خوبصورت لہجے میں اپنے کچھ اشعار بھی سنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری شاعری بنیادی طور پر خوابوں، رنگوں اور خوشبوؤں کی شاعری ہے۔ یہ تتلیوں، جگنؤں اور محبت کے اس سرمدی جذبے کی شاعری ہے جس کی کونپل ہر دل میں پھوٹتی ہے۔ یہ محبت کے رومانوی عہد کی مسافتوں، رفاقتوں، قربتوں اور فرقتوں کی کہانی ہے۔ انہوں نے چیئرمین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک کا تقریب کے انعقاد کے لئے بطور خاص شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے بڑے خوبصورت انداز میں اظہار تشکر کے کلمات ہی ادا نہ کئے بلکہ عرفان صاحب کو ان کی ادبی و علمی خدمات پر زبردست خراج ِ تحسین بھی پیش کیا۔