لو ! وہ بھی کہہ رہے ہیں

لو ! وہ بھی کہہ رہے ہیں

چشمِ فلک نے دیکھا کہ وہ شخص جو ”چوروں“ سے ہاتھ ملانے تک کا روادار بھی نہیں تھا، اب خود مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ وہ شخص جس کی انا پہاڑوں سے اونچی تھی، آج پاتال سے بول رہا ہے۔ وہ شخص جس کی نرگسیت پُکار پکا رکے کہہ رہی تھی ”ہم سا ہو تو سامنے آئے“، آج اپنی ٹوٹی ٹانگ کا بہانہ رچا کر ہمدردیوں کا کشکول تھامے ہوئے ہے۔ ضدی، اناپرست اور انتہائے خود پسندی کا شکار عمران خاں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر عام انتخابات کی تاریخ دے ورنہ اسمبلیاں توڑ دیں گے، سیاسی استحکام کے لیے فوری الیکشن کی طرف جانا ہوگا، ہم نے بہت کوشش کی مگر یہ انتخابات کا نام ہی نہیں لیتے“۔ عرض ہے کہ اتحادی حکومت تو بار بار اکتوبر 2023ء کی تاریخ دے چکی، اب خاں صاحب کِس تاریخ کا مطالبہ کر رہے ہیں؟۔ مولانا فضل الرحمٰن نے چسکا لیتے ہوئے ”شُرلی“ چھوڑی کہ انتخابات مقررہ مدت سے 6 ماہ تاخیر سے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محض مولانا صاحب کے دل کا غبار ہے جسے وہ گزشتہ ایک عشرے سے دبائے بیٹھے تھے لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ اگر ملکی حالات میں کوئی اچانک تبدیلی نہ ہوئی تو عام انتخابات مقررہ مدت پر ہی ہوں گے۔
عمران خاں نے جہاں مذاکرات کی پیشکش کی وہیں دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر حکومت مذاکرات کے لیے تیار نہ ہوئی تو وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ ڈالیں گے۔ یقیناََ وہ ایسا کر سکتے ہیں، سوال مگر یہ کہ کیا وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟۔ آج خاں صاحب حکیم ثنا اللہ فیصل آبادی کے خوف سے بنی گالہ میں اپنا محل چھوڑ کر زمان پارک میں پنجاب حکومت کی پناہ میں ہیں جہاں اُنہیں مکمل پروٹوکول کے ساتھ کئی حفاظتی اہلکار بھی میسر ہیں۔ اگرپنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں تو یہ حفاظتی حصار بھی ختم ہو جائے گااور ثنا اللہ فیصل آبادی کے ہاتھ بہت لمبے ہو جائیں گے۔ کیا خوفزدہ خاں صاحب ایسی حماقت کر پائیں گے؟۔ اِس کے علاوہ خاں صاحب ہیلی کاپٹروں اور کئی کئی گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ سفر کرنے کے عادی ہوچکے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں یہ سب کچھ عنقا ہو جائے گاجو خاں صاحب برداشت نہیں کر سکتے۔ پہلے بات کچھ اور تھی جب عمران خاں وزیرِاعظم تو نہیں تھے لیکن پوری اسٹیبلشمنٹ اُن کی پُشت پر تھی مگر اب اسٹیبلشمنٹ بھی نیوٹرل ہوچکی۔ دوسری بات یہ کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں وہ 60 دنوں کے اندرانتخابات کرا دیں گے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ ہمارے پڑوسی بھارت کی کئی ریاستوں میں وسط مدتی انتخابات
ہوتے رہتے ہیں لیکن مرکزی حکومت قائم رہتی ہے۔ پاکستان میں اتحادی حکومت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں بھی عام انتخابات کرانے کو تیار نہیں۔ اب فرض کریں کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کر دی جاتی ہے تو آئین کے مطابق عبوری حکومتیں قائم ہوں گی جن میں وزرائے اعلیٰ کا انتخاب حزبِ اقتدار اور اختلاف کے قائدین کی باہمی مشاورت سے ہوگا اور کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن عبوری وزیرِاعلیٰ کا انتخاب کرے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عبوری وزرائے اعلیٰ کا متفقہ انتخاب ممکن نہیں اس لیے یہ انتخاب الیکشن کمشن کو ہی کرنا ہوگا جبکہ خاں صاحب ایک لمحے کے لیے بھی الیکشن کمیشن پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ سوال یہ کہ کیا خاں صاحب الیکشن کمشن کے مقرر کردہ عبوری وزرائے اعلیٰ کو قبول کر لیں گے؟۔ پھر یہ امر بھی مدِنظر رہے کہ صرف دونوں صوبائی اسمبلیوں میں ہی عبوری حکومتیں ہوں گی جبکہ مرکزی حکومت اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہوگی۔ اِن حالات میں عمران خاں صوبائی حکومتوں کے انتخابات کیوں کر جیت پائیں گے؟۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں کی تحلیل محض دھمکیوں تک ہی محدود رہے گی۔ عمران خاں یہ حماقت کبھی نہیں کریں گے۔
عمران خاں نے اعظم سواتی کی دوبارہ گرفتاری کو فاشزم قرار دیا۔ کیا وہ اپنا ساڑھے تین سالہ دَور بھول چکے جب ہر طرف فاشزم کا راج تھا۔ وہ شاید مرضِ نسیاں میں مبتلا ہوں گے لیکن قوم کو خوب یاد ہے کہ جیل میں بند باپ کی ملاقات کو جانے والی بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا۔ آصف زرداری کی بیماربہن فریال تالپور کو ہسپتال سے گرفتار کیا گیا۔ موجودہ وزیرِاعظم شہباز شریف کو نیب کے ذریعے جھوٹے کیسز میں پابندِ سلاسل کیا گیا۔ پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور مرکز کے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو 2 سال سے زائد عرصے تک جیلوں میں ٹھونسا گیا۔ مرکز میں نوازلیگ کی تقریباً تمام قیادت کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ رانا ثنا اللہ کو اے این ایف کے ذریعے جعلی منشیات کیس میں قید کیا گیا۔اتفاقاً میں اُس وقت واشنگٹن ڈی سی میں ہی تھی جب عمران خاں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ وہ پاکستان جا کر 3 بار کے سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف کا جیل سے اے سی اُتروا لیں گے اور تمام سہولتیں واپس لے لیں گے۔ صرف اپوزیشن ہی نہیں عمران خاں تو اداروں کے ذریعے بھی ذاتی انتقام کی تسکین کرتے رہے۔ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے بتایا کہ عمران خاں نے اُن سے سوال کیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟۔ جواباً جنرل صاحب نے کہا کہ معیشت۔ جس پر َ عمران خاں نے کہا ”نہیں، اپوزیشن“۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو عمران خاں نے ایسے بے گناہ لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جو اُس کے دائرہئ اختیار میں ہی نہیں تھا۔ ایک دوسری ملاقات میں عمران خاں نے خواجہ آصف پر آرٹیکل 6 کا کیس بنانے کا کہا اور اِس کے بعد محترمہ مریم نواز کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے غلیظ گالی دی جس پر بشیر میمن طیش میں آگئے۔بشیرمیمن نے ایک انٹرویو میں کہا ”باعزت خواتین کے بارے میں غلط زبان استعمال کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے، میں نے کسی کو گالی نہیں دی البتہ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ میں باہر آگیا۔ اِسی دوران اعظم خاں (پرنسپل سیکرٹری وزیرِاعظم) میرا ہاتھ پکڑ کر واش روم لے آئے اور دروازہ بند کرکے مجھے کہا کہ خُدا کا خوف کرو۔ وزیرِاعظم کو ایسے کہتے ہیں“۔ جو شخص اتنا فاشسٹ ہو کہ بُرے بھلے کی تمیز کھو بیٹھے، وہ کسی دوسرے پر فاشزم کا الزام دھرے تو حیرت ہوتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عمران خاں کے اندر ایک بدترین آمر چھپا بیٹھا تھا جو چاہتا تھا کہ ہر کام اُس کے اشارہئ ابرو سے ہو جائے لیکن پارلیمانی جمہوریت میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی مرضی کا چیف آف آرمی سٹاف منتخب کرکے اگلے 10 سال تک مطلق العنان حکمران بننا چاہتا تھا۔ حصولِ مقصد کے لیے وہ پارلیمانی نظامِ جمہوریت کو ختم کرکے صدارتی نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ کو یہ منظور نہ تھا۔
آخر میں عمران خاں کے مطابق ”پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو“ کے بارے میں چند باتیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے فرزند، ڈی فیکٹو وزیرِاعلیٰ پنجاب مونس الٰہی نے ایک انٹرویو میں ایسے انکشافات کیے جو آج بھی زباں زدِعام ہیں۔ اُس نے کہا ”جب تحریکِ عدم اعتماد آئی تو جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر ہم نے عمران خاں کا ساتھ دیا۔ یہ احسان فراموش اُس شخص کے خلاف ٹرینڈ چلاتے رہے جس نے اُن کے لیے سمندروں کا رُخ موڑااور حمایت میں دریا بہا دیئے۔ اُس کے خلاف غلیظ ٹرینڈ چلائے گئے اور جلسوں میں کھڑے ہو کر اُسے غدار کہا گیا جو کسی بھی صورت میں مناسب عمل نہیں تھا“۔ اگر مونس الٰہی کی اِن باتوں کو سچ مان لیے جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ جنرل باجوہ نیوٹرل نہیں تھے۔ وہ ایک طرف تو مرکز میں اتحادیوں کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے جبکہ دوسری طرف پنجاب میں اتحادیوں کی حکومت بنتی نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ ایسی صورت میں اتحادیوں کے قدم مضبوط ہو جاتے۔ سپریم کورٹ کے انتہائی متنازع فیصلے بھی شاید اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایکسٹینشن چاہتے تھے۔