الیکشن کی سائنس

الیکشن کی سائنس

نجانے خانصاحب اور ان کے ساتھی کس دنیا میں رہتے ہیں جہاں ان کے لئے سب ہرا ہی ہرا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے لئے ناسازگار حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ خان صاحب پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکیاں یوں دے رہے ہیں جیسے وہاں پی ڈی ایم کی حکومتیں ہوں اور اسمبلیاں ٹوٹنے سے ان کا بڑا نقصان ہوجائے۔ حکومت کی طرف سے دلچسپ جواب دیا گیا ہے کہ خانصاحب اس خود فریبی سے نکلیں کہ ہم الیکشن لڑنے سے ڈرتے ہیں، ہم ساری عمر الیکشن ہی لڑتے آئے ہیں،بہت بدترین حالات میں بھی لڑے ہیں اور جیتے ہیں۔ یہ بات خواجہ سعد رفیق نے کہی جو ڈیفنس کے حلقے سے عمران خان کو ہرا چکے ہیں اور اس سے پہلے عمران خان کس طرح چھ سو اسی ووٹوں سے جیتے تھے اس بارے بھی سب کو علم ہے۔ خانصاحب مذاکرات کی دعوت ایسے دے رہے ہیں جیسے وہ حکومت پر کوئی احسان کر رہے ہوں حالانکہ جب موصوف خود حکمران تھے تو انہوں نے سقوط کشمیر اور پلوامہ جیسے سانحے تک پر اپوزیشن سے بات نہیں کی تھی۔ یہ قومی اسمبلی میں یوں سیٹیں پھلانگ کے وزیراعظم کی نشست تک پہنچتے تھے کہ اپوزیشن سے نظریں ہی نہ ملانی پڑ جائیں۔ یہ سیاسی مخالفین کی ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کو عدالتوں اور جیلوں میں پہنچانے والا سمجھتا ہے کہ اسے فیس سیونگ دی جائے گی کیونکہ یہ اپنے تئیں عوام میں بہت مقبول ہے تو اس کا لانگ مارچ اس کی مقبولیت کا جنازہ تھا جسے وہ اسلام آباد تک بھی نہیں پہنچا سکا اور اب اسمبلیاں توڑنے کی گیڈر بھبکیاں ہیں۔
اگر خانصاحب اسمبلیاں توڑتے ہیں تو سب سے پہلے نگران حکومت کا مسئلہ ہوگا اورنگران وزیراعلیٰ پی ٹی آئی کا نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں چوہدری پرویزا لٰہی کوحمزہ شہباز کے ساتھ کسی نام پر اتفاق کرنا پڑے گا اور اگر نہ کر سکے تو حکومت اور اپوزیشن کے مساوی ارکان کے ساتھ ایک پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں ڈیڈ لاک برقرار رہا تو ایک مختصر مدت کے بعد معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا جہاں الیکشن کمیشن سابق وزیراعلیٰ اور سابق اپوزیشن لیڈر کے دئیے ہوئے ناموں میں سے کسی ایک کا اپنی صوابدید پر چناو کرے گا اور گورنر صوبے میں نوے روز کے لئے نگران حکومت کا اعلان کر دے گا۔ اب پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ وہ اتنی مقبول ہے کہ ہر الیکشن جیت سکتی ہے مگر میں پی ٹی آئی کے دوستوں کو چار برس پہلے ہونے والے عام انتخابات میں لے جانا چاہتا ہوں۔یہ وہ وقت تھا جب الیکشن کمیشن نے صوبے میں حسن عسکری رضوی کی صورت میں پی ٹی آئی کا دل اور دماغ رکھنے والا وزیراعلیٰ بٹھا دیا تھا۔ مقتدر حلقے پوری طرح سرگرم تھے اور انہوں نے جنوبی پنجاب سے چار درجن کے لگ بھگ الیکٹ ایبلز بھی پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دئیے تھے۔ سنٹرل پنجاب میں الیکشن اس طرح ہوئے تھے کہ تمام کم فرق والی نشستوں کے نتائج روک لئے گئے تھے اور جہاں نواز لیگی امیدوار پانچ، سات ہزارووٹوں سے جیت رہے تھے وہاں سے وہ اتنے ہی ووٹوں سے ہرا دئیے گئے تھے مگر اس کے باوجود پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کے ارکان زیادہ تھے۔آزادا میدواروں کے لئے مقدمات اور گرفتاریوں کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ نوٹوں اور وزارتوں کی بوریاں کھولی گئیں تب جا کے تعداد کہیں پوری ہوئی۔ اس دھاندلی کے ساتھ ساتھ عمران خان اس وقت پنجاب میں ایک’فریش پیس‘ تھے، ان پر مرکز میں اپنی اور پنجاب میں عثمان بزدار جیسی نااہلی اور بدعنوانی کابوجھ نہیں تھا اور اب تو پلوں کے نیچے سے بہت سارا گدلا پانی بہہ چکا ہے۔
پنجاب میں ان کے لئے آخری حکومت قمر جاوید باجواہ قائم کروا کے گئے تھے۔ اس حکومت کے قیام کے لئے عدالتوں کو اپنے ہی آئینی اور سیاسی جواز کے حامل فیصلوں کی نفی کرنی پڑی۔ مونس الٰہی نے پنجاب حکومت کے قیام کی اصل کہانی بیان کردی ہے۔ میرا گمان تھا کہ مونس الٰہی جھوٹ بول رہے ہیں تاکہ وہ شریف خاندان اوراسٹیبلشمنٹ کے سیٹ اپ کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کروا سکیں کیونکہ حمزہ شہباز اگر شہباز شریف کے بیٹے ہیں تو وہ اپنے تایا کے بھی بہت پیارے ہیں۔ ان کی حکومت کا اس طرح خاتمہ کسی کو بھی ہضم نہیں ہوسکتا۔ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجواہ کی طرف سے اس بیان کی تردید نہ آنے نے فوج کے ان افسران کے لئے بہت ساری مشکلات پیدا کر دی ہیں جو پریس کانفرنس کرکے کہہ رہے تھے کہ فوج گذشتہ برس فروری سے غیر سیاسی ہوچکی ہے۔ کسی ستم ظریف نے کہا کہ ہم عمران خان کو یوٹرن کہتے رہے جبکہ باجواہ صاحب سیاست کی سڑک کا گول چکر نکلے، وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے رہے۔ بہرحال میں پہلے دن سے ہی کہہ رہا ہوں کہ مقتدر حلقوں کی براہ راست مداخلت ختم ہوبھی جائے تو وہ اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے اور اس سے بہتر تحفظ کیا ہوسکتا ہے کہ اوپر شہباز شریف کی حکومت ہو اور نیچے پرویز الٰہی کی۔ یہ نفسیاتی تجزیہ دلچسپ ہوگا کہ جو انہیں میر جعفر، میر صادق کہہ رہے تھے اوران کے ادارے کو جانور۔ وہ انہی کواقتدار دلوا رہے تھے، کیوں؟
خانصاحب اور ان کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ وہ بہت مقبول ہیں حالانکہ مسئلہ صرف مہنگائی کا ہے جس نے عام آدمی کا جینا اجیرن کر رکھا ہے ورنہ یہی مسلم لیگ اس سے پہلے ضمنی انتخابات (کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں بھی) کلین سویپ کرتی رہی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت اسی لیے اکتوبر تک انتخابات پر اصرار کررہی ہے تاکہ وہ ملکی معیشت کو سنبھالا دے سکے اور عوام کو کچھ ریلیف۔ ڈالر دوسو روپوں سے نیچے آسکے اور عوام کو بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں بھی کچھ ریلیف دیا جا سکے۔ میں آج بھی پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اگر آج سے چار برس پہلے پری پول، پولنگ ڈے اور پوسٹ پول منظم دھاندلی اور جگا شاہی نہ ہوتی تو مسلم لیگ نون کوپنجاب میں حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اب اگر پی ٹی آئی کے لئے وہ سب کچھ نہ کیا گیا جو دو ہزار اٹھارہ میں کیا گیا تھا تو پی ٹی آئی اب کیسے دوبارہ پہلے سے زیادہ ووٹ اور نشستیں لے سکتی ہے؟ ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اگرپنجاب میں پہلے انتخابات ہوگئے اور یہاں بنائے گئے تاثر کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو گئی تو عام انتخابات میں اس کا فائدہ عمران خان کو ہی ہوگا مگر یہ بھی خام خیالی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک عمران خان ہی انتخابی اور سیاسی میدان کے اکیلے گھوڑے کے طور پر بھاگے چلے جا رہے ہیں اور جتنی چاہے گرد اڑا رہے ہیں مگر جب رانا ثناء اللہ خان کے اعلان کے مطابق نواز شریف بھی الیکشن سے پہلے واپس آجائیں گے اور اکھاڑے میں دونوں پہلوان موجود ہوں گے تو پھر اصل طاقت کا پتا چلے گا فی الحال تو اسی لطیفے پر گزارا کیجئے کہ جب عمران خان نے پرویز الٰہی سے کہا کہ آپ پنجاب اسمبلی توڑ دیں تو جواب ملا، توڑ تو میں دوں گا مگر خانصاحب جو پنجاب پولیس اس وقت زمان پارک میں آپ کو سیکورٹی اور پروٹوکول دے رہی ہے، میری حکومت ختم ہوتے ہی دیواریں پھلانگ کے آپ کو گرفتار کرنے پہنچ جائے گی، کسی غلام پر بھروسہ مت کیجئے گا چاہے وہ وفاداری کا کتنا ہی یقین کیوں نہ دلا رہا ہو۔