مرنے کے بعد مجھ پر کیا بیتی؟ ایک پُراثر کہانی

مرنے کے بعد مجھ پر کیا بیتی؟ ایک پُراثر کہانی

   تیسرا حصہ

فرشتے مجھے لے کر واپس زمین کی طرف روانہ ہوئے۔ اور جہاں جہاں سے گزرتے گئے دوسرے فرشتوں کوسلام کرتے گئے ۔ میں نے راستے میں اُن سے پوچھا۔ کیا میں اپنے جسم اور گھروالوں کے متعلق جان سکتا ہوں؟

اُنہوں نے کہا اپنے جسم کو عنقریب تم دیکھ لوگے۔ لیکن جہاں تک تمہارے گھر والوں کا تعلق ہے۔ اُن کی نیکیاں آپ کو پہنچتی رہیں گی۔ لیکن تم اُنہیں دیکھ نہیں سکتے۔

اُس کے بعد وہ مجھے زمین پر لے آئے اور کہا اب تم اپنے جسم کے ساتھ رہوہمارا کام ختم ہو گیا۔

اب قبر میں تمہارے پاس دوسرے فرشتے آئیں گے، میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپکو جزائےخیر دے۔ کیا میں پھر کبھی آپکو دیکھ سکوں گا؟ اُنہوں نے کہاقیامت کے دن  اور اس کے ساتھ اُن پر ہیبت طاری ہوئی ۔ پھر اُنہوں نے کہا اگر تم اہل جنت میں سے نکلے تو ہم ساتھ ساتھ ہوں گے۔ ان شاء اللہ

میں نے پوچھا جو کچھ میں نے دیکھا اور سُنا کیا اس کے بعد بھی میرے جنت جانے میں کوئی شک رہ گیا ہے؟

اُنہوں نے کہا تمہارے جنت جانے کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔تمہیں جو عزت و اکرام ملا وہ اسلئے کہ تم مسلمان مرےہو۔ لیکن تمہیں اعمال کی پیشی اور میزان سے ضرور سابقہ پیش آنا ہے۔

مجھے اپنے گناہ یاد آئے اورکہا کہ زور زور سے روﺅں۔

انہوں نے کہا اپنے رب سے نیک گمان کرو۔ کیونکہ وہ کسی پر ظلم ہر گز نہیں کرتا۔ اس کے بعد انہوں نے سلام کیا اور بڑی تیزی سے اوپر کی طرف اُٹھ گئے۔

میں نے اپنے جسم پر نظر دوڑائی میری آنکھیں بند تھیں۔ اور میرے اردگرد میرے بھائی اور والد صاحب رو رہے تھے۔ اُس کے بعد میرے جسم پر پانی ڈالا گیا۔ تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے غسل دیا جا رہا ہے۔ اُن کے رونے سے مجھے تکلیف ملتی تھی اور جب میرے والددُعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ تو اُن کی یہ بات مجھے راحت پہنچاتی تھی۔اُس کے بعد میرے جسم کو سفید کفن پہنچایا گیا۔

میں نے اپنے دل میں کہا۔ افسوس میں اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں ختم کرتا۔ کاش میں شہید مرتا۔ افسوس میں ایک گھڑی بھی اللہ کے ذکر یا نماز یا عباد ت کے بغیر نہ گزارتا، کاش میں شب و روز اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا۔ افسوس ھائے افسوس۔ اتنے میں لوگوں نے میرا جسم اٹھایا۔ میں اپنے جسم کو دیکھ رہا ہوں لیکن نہ تو اس کے اندر جا سکتا ہوں اور نہ دور ہو سکتا ہوں۔ ایک عجیب سی صورتحال سے دوچار تھا۔مجھے جب اُٹھایا گیا۔ تو جو چیز میرے لئے اُس وقت تکلیف دہ تھی ۔ وہ میرے گھر والوں کا رونا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا میں اپنے ابا سے کہدوں ابا جان پلیز رونا بند کردیں بلکہ میرے لئے دُعا کریں۔ کیونکہ آپ کا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔ میرے رشتے داروں میں اُس وقت جو کوئی میرےلئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے راحت مل جاتی تھی۔

مجھے مسجد پہنچایا گیا اور وہاں اُتارا گیا اور میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں مجھے شدید خواہش ہوئی کہ میں بھی اُن کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاﺅں ۔ میں نے سوچا کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ کہ نیکیاں کمارہے ہیں جبکہ میرا عمل نامہ بند ہوگیا ہے۔

نماز ختم ہوئی تو موٗذن نے اعلان کیا (الصلوٰۃ علی الرجل یرحمکم اللہ ) امام میرے قریب آیا اور نماز جنازہ شروع کی۔ میں حیران ہوا۔ کہ وہاں بہت سارے فرشتے آگئے ۔ جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ نماز پڑھنے والے کتنے لوگ ہیں؟ اور ان میں کتنے موحد ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے؟

چوتھی تکبیر میں ، میں نے دیکھا کہ فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں مجھے اندازہ کہ وہ لوگوں کی دُعائیں لکھ رہے ہوں گے۔اُس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ امام اس رکعت کو مزید لمبی کردے ۔ کیونکہ لوگوں کی دُعاﺅں سےمجھے عجیب سی راحت اور سرور مل رہا تھا۔ نماز ختم ہوئی اور مجھے اُٹھا کر کر قبرستان کی طرف لے گئے راستہ میں کچھ لوگ دُعائیں مانگ رہے تھے اور کچھ رو رہے تھے۔اور میں حیران و پریشان تھا کہ نہ معلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مجھے اپنے تمام گناہ اور غلطیا ں اور ظُلم اور جو غفلت کی گھڑیاں میں نے دُنیا میں گزاری تھیں۔ ایک ایک چیز سامنے آرہی تھی۔ ایک شدید ہیبت کا عالم تھا جس میں گذررہا تھا۔

الغرض قبرستان پہنچا کر مجھے اُتارا گیا۔ اُس وقت مختلف قسم کی آوازیں سننے میں آئیں کوئی کہہ رہا ہے ۔ جنازے کو راستہ دیدو۔ کوئی کہہ رہا ہےاس طرف سے لے جاﺅ  کوئی کہتا ہے قبر کے قریب لکھدو۔ یا اللہ میں نے کبھی اپنے بارے ایسی باتیں نہیں سوچی تھیں۔ مجھے قبر میں رُوح اور جسم کے ساتھ اُتارا گیا۔ لیکن اُنہیں صرف میرا جسم نظر آرہا تھا رُوح نہیں نظر آرہی تھی۔

اُسکے بعد لحد کو بند کرنا شروع کر دیا۔ میرا دل چاہا کہ چیخ چیخ کے کہدوں کہ مجھے یہاں نہ چھوڑیں پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ لیکن میں بول نہیں سکتا تھا۔الغرض مٹی ڈالنی شروع ہوئی اور قبر میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ لوگوں کی آوازیں بند ہوتی چلی گئیں۔لیکن میں اُ ن کے قدموں کی آوازیں سُن رہا تھا۔ اُ ن میں سے جو کوئی میرے لئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے سکون مل جاتا تھا۔اچانک قبر مجھ پر تنگ ہوگئی اور ایسا لگا کہ میرے پورے جسم کو کچل دے گی اور قریب تھا کہ میں ایک چیخ نکال دوں لیکن پھر دوبارہ اصلی حالت پر آگئی ۔

اُس کے بعد میں نے ایک طرف دیکھنے کی کوشش کی کہ اچانک دو ہیبت ناک قسم کے فرشتے نمودار ہوئے جن کے بڑے بڑے جسم، کالے رنگ، اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک تھی۔ اور اُ ن میں سے ایک کے ہاتھ میں گرز تھا اگر اُس سے پہاڑ کو مارے تو اُسے ریزہ ریزہ کر دے۔

اُ ن میں سے ایک نے مجھے کہا بیٹھ جاﺅ۔ تومیں فوراَ بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے کہا (من ربک ) تمھار رب کون ہے۔ جس کےہاتھ میں گز تھا وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے کہا (ربی اللہ ) میرا رب اللہ ہے۔ جواب دیتے وقت مجھ پر کپکپی طاری تھی۔ اس لئے نہیں کہ مجھے جواب میں کوئی شک تھا۔ بلکہ اُ ن کے رُعب کی وجہ سے۔ پھر اُس نے مزید دو سوال کئے کہہ تمھارا نبی کون ہے اور تمھارا دین کونسا ہے اور الحمدللہ میں نے ٹھیک جوابات دیدئیے ۔

اُنہوں نے کہا۔ اب تم قبر کے عذاب سے بچ گئے۔ میں نے پوچھا کیا تم منکر و نکیر ہو؟

اُنہوں نے جواباَ کہا ہاں۔ اور بولے کہ اگر تم صحیح جوابات نہ دیتے تو ہم تمہیں اس گز سے مارتے اور تم اتنی چیخیں نکالتے کہ اُ سے زمین کی ساری مخلوق سُن لیتی۔ سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اور اگر جن و انس اُسے سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔ میں نے کہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اس مصیبت سے بچا لیا۔ اُسکے بعد وہ چلےگئے اور اُن کے جانے سے مجھے قدرے اطمینان حاصل ہوا۔

اُ ن کے چلے جانے کے ساتھ ہی مجھے سخت گرمی محسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میرا جسم جلنے والا ہے جیسے کہ جہنم سے کوئی کھڑکی کھولی گئی ہو۔ اتنے میں دواور فرشتے نمودار ہوئے اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے جواب دیا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ اُنہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں۔ ہم قبر میں تمہارے اعمال تمہیں پیش کرنے آئے ہیں۔ تاکہ قبر میں قیامت تک تمہیں اپنی نیکیوں کا جو بدلہ ملنا چاہیے وہ بدلہ مل جائے ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم جس سختی اور اذیت سے میں دوچار ہوں۔ میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا نہیں تھا۔

پھر میں نے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟ اُنہوں نے کہا  کرلو میں نے پوچھا کیا میں اہل جنت میں سے ہوں اور کیا اتنی ساری تکلیفیں جھیلنے کے بعد بھی میرے لئے جہنم جانے کا خطرہ ہے؟

اُنہوں نے کہا تم ایک مسلمان ہو ۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہو۔ لیکن جنت جانے کا علم ایک اللہ کے علاوہ کسی کونہیں ہے۔ بہرحال اگر تم جہنم چلے بھی گئے تو وہاں ہمیشہ نہی رہوگے۔ کیونکہ تم موحد ہو۔

یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں نے کہا اگر اللہ نے مجھے دوزخ بھیج دیا تو پتہ نہیں میں وہاں کتنا عرصہ رہوں گا؟

اُنہوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھو۔ کیونکہ وہ بہت کریم ہے۔ اور اب ہم تمہارے اعمال پیش کر رہے ہیں۔ تمہارے بلوغت سے وقت سے تمہارے ایکسیڈنٹ کے وقت تک۔

اُنہوں نے کہاسب سے پہلے ہم نماز سے شروع کرتے ہیں کیونکہ کافر اور مسلمان کے مابین فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ لیکن فی الحال تمہارے سارے اعمال مُعلق ہیں۔

میں نے حیرانگی سے پوچھا میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے نیک اعمال کئے ہیں۔ آخر میرے اعمال مُعلق کیوں ہیں؟ اور اس وقت جو میں اپنے جسم میں دُنیا جہاں کی گرمی محسوس کررہا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟اُنہوں نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارے اُوپر قرضہ ہے جو تم نے مرنے سے پہلے ادا نہیں کیاہے۔

میں روپڑا  اور میں نے کہاکیسے ؟ اور یہ جو میرے اعمال مُعلق ہیں کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟

میرا سوال ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ میری قبرمیں اچانک روشنی آگئی۔ اور ایک ایسی خوشبو پھیل گئی کہ ایسی خوشبو نہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سونگھی اور نہ مرنے کے بعد۔

اُس روشنی سے آواز آئی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے پوچھا تم کون ہو؟

اُس نے کہا میں سورۃ المُلک ہوں۔میں اس لئے آئی ہوں کہ اللہ سے تیرے لئے مدد طلب کردوں۔ کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی۔ اور تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں بتا دیا تھا۔

کہ جو کوئی سورۃ المُلک پڑھے گا۔ قبر میں وہ اُس کے لئے نجات کا ذریعہ ہوگی۔

میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا میں نے بچپن میں تمہیں حفظ کرلیا تھا۔ اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھر میں تیری تلاوت کیا کرتا تھا۔ مجھے اِس وقت تمہاری اشد ضرورت ہے۔اُ س نے کہا اس لئے تو میں آئی ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کر لوں کہ وہ تمہاری تکلیف کو آسانی میں تبدیل کر دے۔ لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کئے ہیں۔

میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہے؟

اُس نے کہا۔ تین باتوں میں سے کوئی ایک تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔

میں نے جلدی سے کہا وہ کونسے کام ہیں؟

اُس نے کہا  پہلے یہ بتادوکہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کر چھوڑا ہے ۔جسے دیکھ کر تمہارے ورثہ وہ قرضہ ادا کر دیں؟
 ورثہ وہ قرضہ ادا کر دیں؟

ورثہ کا نام سُن کر میرے آنسو نکل آئے ۔مجھے تمام گھروالے امی ، ابو، بیوی، بہن، بھائی اور بچے یاد آئے۔ پتہ نہیں میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس کے ساتھ میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اسکے لئے چاکلیٹ لے کر دے گا؟

میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون ان کا خیال رکھے گا؟

سورۃ المُلک نے پوچھا۔ لگ رہا ہے۔ تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟

میں نے کہا مجھے اپنے اہل و عیال اور بچے یاد آئے۔ کہ میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا۔

سورۃ المُلک نے کہا۔ جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے۔ وہی روزی بھی دے گا۔ اور وہی نگہبان بھی ہے۔

سورۃ المُلک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی حاصل ہوئی۔

اُ سکے بعد میں نے پوچھا۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپر ٹوٹل کتناقرضہ ہے؟

سورۃ المُلک نے کہا کہ میں نے فرشتے سے پوچھا تواُ س نے بتایا کہ ایک ہزار سات سو ریال ۔ 1000 آپ کے دوست کے ہیں جس کا نام ابوحسن ہے۔ اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔

میں نے کہا مختلف لوگ کون ہیں؟

باقی اگلی قسط میں پڑھیں

مصنف کے بارے میں