نظریات سے زندگی بدلئے

نظریات سے زندگی بدلئے

   ہماری زندگی کی اکثر تلخیوں اور ناخوشگواریوں کی وجہ ہمارے بنائے ہوئے نظریات ہوتے ہیں  اور ان   نظریات کی بنیاد وہ مشاہدات ہیں  جو ہم نے  ہمارے اردگرد کے  ماحول سے لیے ہوئے ہیں اس لیے اردگرد کے  ماحول کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے ، اور ہمیں یہ سمجھنے کی  ضرورت بھی ہے کہ جیسے  ہمارے مشاہدے  ہو نگے ویسے ہی نظریات ہونگے۔۔ اور انہی نظریات کو بنیاد بنا کر ہم زندگی کے فیصلے کرتے ہیں اور یہی  نظریات ہماری  زندگی کو تعین کرتے ہیں ۔ اس لیے اگر  آپ کو زندگی میں بہتری لانی ہے تو  اپنے مشاہدات  کو بہتر بنانا ہوگا  اور اس کے لیے اپنے  اردگرد کے ماحول کو بہتر بنائیں ،اچھے لوگوں میں اٹھیں  بیٹھیں ، اچھی کتابیں پڑھیں اور نئی نئی اچھی  چیزیں سیکھیے ۔ اس آپ کی  سوچ کو وسعت ملے گی اور آپ  نئے ڈھنگ سے سوچ سکیں گے اور  اس سے نہ صرف نظریات میں    بہتری آئے  گی بلکے ان  نظریات کا معیار بھی اچھا ہو گا ۔۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ     اچھی سوچ ہی کردار سازی کرتی ہے اور یہی کردار سازی معاشرہ سازی کرتی ہے   صرف یہی نہیں اچھی سوچ، اچھے نظریات ہی اچھے  انسان کی  پہچان ہیں ۔ اسی طرح  اچھا  مشاہدہ ہی اچھے نظریات کو جنم دیتا ہے  جو بہترین زندگی کا ضامن ہے  


یہاں  ہمیں ایک  اہم معاشرتی  پہلو کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی   کہ کیسے  بچے  غلط قدم  اٹھاتے ہیں  جب انہیں  ماں باپ کی طرف سے اعتماد اور بھروسہ نہیں ملتا، جب ماں باپ ان پر بھروسہ نہیں کرتے اور ہر وقت  ان پر پہرہ  بٹھائے رکھتے ہیں ۔  اب بچے  اس بے وجہ ہر وقت کے  پہرے سے چڑ رہے ہوتے ہیں اور وہ تو موقع ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ کیسے اس سے فرار حاصل کی جائے  ۔بچے اعتماد  اور بھروسہ کی کمی کی وجہ سے  وہ وہ قدم اٹھا لیتے ہیں  جو ان کی تو زندگی کو متاثر کرتے ہیں    مگر والدین کی  عزت کو  بھی نیلام کر دیتے ہیں ۔


ہمارے  معاشرے میں   بچوں کو والدین کی طرف سے  اعتماد کم ملتا ہے  جس وجہ سے وہ اپنی  باتیں والدین سے چھپاتے  ہیں  اور والدین سے  خود کو  دور محسوس کرتے ہیں  ۔میں  یہ نہیں کہتی کہ  ہمیں بچوں  پر  بلکل سختی نہیں چاہئیے  ہمیں  بلکل  انہیں  سمجھانا چاہیے  مگر اس کے ساتھ ساتھ ان پر بھروسہ  بھی کرنا چاہیے  اور انہیں یہ محسوس  بھی کرانا چاہیے کہ ہمیں ان پر بھروسہ ہے تاکہ وہ  کوئی غلط قدم اٹھانے سے پہلے  دس  مرتبہ  سوچیں کہ  وہ ان والدین کے ساتھ  کیا کرنے جا رہے ہیں جنہیں ان پر اتنا بھروسہ ہے ۔
 

اسماء طارق

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)