اناج، معاشرت اور ثقافت کا کیا ہوا؟

اناج، معاشرت اور ثقافت کا کیا ہوا؟

 جس طرح انسانی بدن میں ریڑھ کی ہڈی پورے وجود کو قائم رکھتی ہے اسی طرح ہر معاشرت کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہوا کرتی ہے جو اس معاشرت کی ریاست اور ثقافت کو کھڑا رکھتی ہے۔ ہماری ثقافت معیشت اور ریاست کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے۔ ہماری ثقافت اور معاشرت زراعت سے جڑی ہے ہمارے افسانے، کہانیاں، ماضی اور امیدیں زراعت سے وابستہ ہیں جس کے ماتھے کا جھومر مزدور کسان ہے وہ چاہے زمیندار ہے یا مزارع، وہ پوری کی پوری ریاست اپنے کندھوں پہ اٹھائے ہوئے ہے مگر اب اس کی ہمت دم توڑ رہی ہے۔ اس کا مان ٹوٹ رہا ہے اس کا ریاست سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے وہ دھرتی کو ماں سمجھتا ہے آج وہ اس دھرتی پر تاجروں اور پراپرٹی مافیا کے ہاتھوں رہائشی بستیوں میں بدلنے کی خواہش میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اگر یہ رجحان روکا نہ گیا اگر کسان کو اس کے کھیت بھوک بیماری دیتے رہے، مقروض کرتے رہے، زندگی کی ضرورتوں کو مسلسل حسرتوں میں بدلنے کے عمل کو اس سبک رفتاری سے جاری رکھا تو ہم اناج کو تو ترسیں گے ہی عنقریب ہماری ثقافت بھی کتابوں میں رہ جائے گی۔ جس قوم کی ثقافت کو فتح کر لیا جائے یا ثقافت دم توڑ دے اس پر فوج کشی کی ضرورت نہیں رہتی اور جس معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے وہ معیشت اور معاشرت زندہ نہیں رہ سکتی، قائم نہیں رہ سکتی۔
میری ہمسائیگی میں چودھری محمد اصغر سمراء نمبردار جن کا آبائی طور پر تعلق شیخوپورہ کے زمیندار اور زراعت سے وابستہ گھرانے سے ہے۔ یوں تو روزانہ گپ شپ رہتی ہے۔ جس طرح دل کی شریانوں میں تنگی آ جائے اور خون کی سپلائی معطل ہو جائے تو تندرست دل بھی یکدم بند ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسان کی سہولیات کھاد، مناسب رویے اور ماحول میں تنگی دی گئی تو معاشی نظام اور معاشرت بیٹھ اور برباد ہو جائے گی۔ ہمارے اناج ہی نہیں ثقافت اور درخشندہ روایات کا بوجھ بھی کسان اور مزدور کے کندھوں پر ہے۔ چودھری محمد اصغر سمراء نمبردار سیاسی، سماجی اور بن الاقوامی امور پر کسی بھی پارلیمنٹیرین سے زیادہ با خبر ہیں کیونکہ ایک روایتی زمیندار اور عملی انسان ہیں۔ ایک دن میں نے سوال کر دیا کہ وطن عزیز کو اس نہج پر 
کون لے کر آیا، آپ کس کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ چودھری جو ایک جاٹ ہیں ان میں سے ایک دم بیسیوں معاشی ماہرین، سیاسی دانشور اور سماجی رہنما برآمد ہوئے۔ ان کی برجستہ اور فی البدیہہ گفتگو سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ چودھری صاحب نے کہا کہ گندم کے ایک کھیت پر 6 ماہ مسلسل محنت کرنے اور وہ بھی اگر کوئی سماوی آفت نہ آ جائے کھاد کی ترسیل، پانی، ڈیزل، کھاد میسر ہو تو 35 من کے قریب گندم حاصل ہوتی ہے جو زیادہ سے زیادہ کسان یا زمیندار کو 700 روپے فی من منافع کا سبب بنتی ہے اس بار کسانوں اور زمینداروں سے حکومت نے گندم 2200 روپے فی من کے حساب سے خریدی۔ چودھری محمد اصغر سمراء نمبردار انتہائی دکھ اور کرب سے کہنے لگے یہی گندم عوام کو 5000 روپے من وہ بھی لائنوں اور قطاروں میں بمشکل مل رہی ہے۔ یہ درمیان کا 3000روپیہ فی من کدھر جا رہا ہے، کیا یہ ضلعی انتظامیہ کی افسر شاہی، ڈبل کیبن ڈالے، ایئرکنڈیشن، مفت پٹرول اور دفتر کے اخراجات، ان کی تجوریوں اور جیبوں میں جا رہا ہے۔ آخر یہ 2200 روپے فی من گندم عوام کو میسر کیوں نہیں ہے۔ جبکہ دوسری جانب 3300 سے 3500 روپے فی من حکومت کی طرف سے خریدی جانے والی مونجی جس پر تمام اخراجات اور تھریشنگ کے بعد چاول کی صورت سامنے آنے والے اناج کی قیمت زیادہ سے زیادہ 6600 سے 7000 روپے فی من / 40 کلو بنتی ہے۔ اس میں تمام اخراجات شامل ہیں لیکن آج وہی چاول 12 سے 14 ہزار روپے فی من بھی دستیاب ہوں تو عوام غنیمت سمجھتے ہیں۔ پھر مزید بتانے لگے کہ ٹریکٹر 240 کم از کم 20 لاکھ جبکہ 385 تیس لاکھ روپے میں دستیاب ہے جس کے متعلق سن رہے ہیں کہ قیمت بڑھ گئی ہے، سوئی گیس، ڈیزل اور پانی کی دستیابی الگ امتحان ہیں۔ کھاد کی ترسیل گویا قربانی کے گوشت میں سے غریبوں کے حصے کی طرح دی جاتی ہے۔ مہنگی بجلی، مہنگا ٹریکٹر، کھاد کی عدم دستیابی، مہنگا ڈیزل اور کم پانی کے باوجود کسان یا زمیندار اس دھرتی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کے اس رویے کو کسانوں کا قتل عام سمجھنا چاہئے۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے بیرون ممالک سے 5000 روپے فی من کے حساب سے گندم درآمد کی ہے جبکہ اس کا معیار یہ ہے کہ برآمد کرنے والے ملک کی لیبارٹریز نے اس گندم کو انسانی صحت کے لیے مضر قرار دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے ملک کی گندم کون کھا گیا، اناج کدھر گیا۔ کبھی مشرقی اور مغربی پنجاب پورے ہندوستان جس میں کشمیر اور برما بھی شامل تھا کو گندم مہیا کرتا تھا۔ آج گندم بونے والوں کو آٹا نصیب نہیں، چاول بونے والوں کو چاول نصیب نہیں۔ کسان اور مزدور بلکہ سفید پوش متوسط طبقہ تو زندہ درگور ہو گئے، حکومت کو اپنے کسان، زمیندار کے دکھوں کا مداوا کرنا ہو گا۔ اس بات سے غرض نہیں کہ حکومت کس کی ہے، حاکم کون ہے مگر عوام تو وہی ہیں، ضرورتیں اور وسائل تو وہی ہیں۔ اگر ضرورتوں کا گلہ دبا دیا گیا اور وسائل برباد کر دیئے گئے تو پھر کوئی معیشت دان، دانشور ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ہڈی والی معیشت اور مفتوحہ معاشرت قائم نہیں رکھ پائے گا۔ افسوس صد افسوس کہ یہی کسان اور مزدور اسمبلی میں پہنچنے والوں کے جلسوں کی رونق ہیں، یہی قوت کا سبب ہیں، یہی ہماری افرادی قوت ہیں۔ صبح کے وقت ہر شہر، ہر قصبے اور محلے کے چوکوں میں کھڑے مزدور جو اپنے بدن اور قوت کی قیمت کے لیے آتے ہیں، واپس مایوس لوٹتے ہیں۔ کسان مقروض ہو رہا ہے۔ یہ حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب کسی کو اناج نہیں ملے گا، کوئی معاشرت وجود نہیں رکھے گی اور صاحبان اقتدار و اشرافیہ کہتے ہوئے پائے جائیں گے کہ اناج کیا ہوا؟ ثقافت کیا ہوئی؟ وہ غلامان کیا ہوئے؟ وہ معاشرت کیا ہوئی۔ صاحبان اقتدار کچھ تو حساسیت کا مظاہرہ کریں۔ 2200 روپے من گندم 5000 روپے میں نہیں ملتی۔ 6600 سے 7000 روپے من چال 12000سے 14000 روپے من دستیاب نہیں۔ یہ سب کس کے پیٹ میں اتر رہے ہیں۔ ایک بیٹھک سید عمران شفقت کی ہے لیکن مجھے بہت قرار آیا کہ ایک بیٹھک جس میں چودھری امجد علی ہنجرا، چودھری اصغر علی سمراء نمبردار، چودھری احسان علی سمراء ایڈووکیٹ، چودھری سہیل اصغر سمراء، چودھری بلال اصغر سمراء، عامر بشارت، انجم صاحب اور دیگر احباب بیٹھے تھے۔ جو گفتگو، موضوعات اقتدار اور انصاف کے ایوانوں میں ہونی چاہئے وہ گفتگو اس بیٹھک میں تھی۔ بہت سارے لوگ جن میں بے روزگار، مزدور، بیمار، جن کو ہم کمی کمیرے بولتے ہیں وہ درمیانے طبقے اور زمیندار پر تاجر پر بھروسہ کرتے تھے مگر آج اناج، ثقافت اور معاشرت معدوم ہوئے جا رہی ہے۔