دہشت گردی اور ہمارا کردار

دہشت گردی اور ہمارا کردار

دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک جنگ جاری رکھنے کے بیانات کے باوجود بھی دہشت گردی جاری ہے سانحہ پشاور ایک اور واردات ایک اور المیہ جو بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھا گیا۔ کچھ کے سروں سے باپ کا سایہ چھن گیا تو کچھ کے سہاگ اجڑ گئے۔ کچھ کے بھائی اس سانحہ کی نذرہوئے تو کچھ کے جگر لہو ہوئے۔سانحہ پشاور میں سو سے زیادہ بے گناہ پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور 221کے قریب زخمی ہوئے۔ ایک زخمی نوجوان کی بات سن کر تو جیسے کلیجہ پھٹ گیا، اس کے سر پر چوٹ لگی تھی تو اس نے پوچھا کہ وہ بچ تو جائے گا کیونکہ اس کی ماں اس سے بہت پیار کرتی ہے۔آپ کو یاد ہو گا کہ جب عدلیہ بحالی تحریک چل رہی تھی تو ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد محب وطن لوگوں کی جانب سے ایک بیان ضرور دیا جاتا تھا کہ دہشت گردی اس لئے ہو رہی ہے کیونکہ عوام کو انصاف نہیں ملتا۔جب عدلیہ بحال ہو گئی انصاف ملا اور دہشت گردی کا سلسلہ پھر بھی دراز ہوتا چلا گیا تو ایک اور موقف سامنے آیا کہ عوام کو روز گار نہیں ملتا اور غربت ہی دہشت گردی کی اصل وجہ ہے۔ اس کے بعد یہ سب کچھ سی پیک منصوبہ کو سبو تاژ کرنے کے لئے کیا جا رہا تھا۔پھر دہشت گردوں کے وکیلوں نے اس دور میں ایک ایسا سدا بہار جواز تراشا تھا کہ اس کے جھانسے میں اچھے خاصے معقول انسان بھی آ گئے کہ دہشت گردی اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ ہم نے ڈرون حملوں کے لئے امریکہ کو اپنی ایئر بیس دی ہیں۔ جن لوگوں نے اس جواز پر یقین کیا ان کی حماقت کے کیا کہنے اس لئے کہ اگر دہشت گردی کی یہی وجہ تھی تو کیا ڈرون داتا دربار سے اڑتا تھا اور واپس اس کی لینڈنگ مون مارکیٹ لاہور میں ہوتی تھی یا وہ اپنی اڑان محرم یا عید میلاد النبی ؐ کے جلوس سے بھرتا تھا۔ 25فروری2013کو شکار پور کی در گاہ غازی غلام شاہ میں 3افراد جاں بحق اور 24زخمی ہوئے، 2010میں کراچی کے اندر عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر دھماکہ میں 8افراد جاں بحق اور درجنوں زخمیوں ہوئے،2011میں ڈیرہ غازی خان میں صوفی بزرگ سخی سرور کے مزار پر خود کش حملہ میں 50افراد جاں بحق اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے،یکم جولائی 2010کوداتا دربار لاہور میں تین خودکش دھماکوں میں 35افراد جاں بحق اور 170زخمی 
ہوئے اور ان سب سے کہیں پہلے 2005کو اسلام آباد میں امام بری کے مزار پر دہشت گردی کی واردات میں 18افراد جاں بحق اور 86زخمی ہوئے۔ سب سے اہم بات کہ اب جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کی کیا وجہ ہے کیونکہ اب تو نہ ڈرون اڑتے ہیں نہ افغانستان میں امریکن فوج ہے اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہو رہی ہے۔
ماضی میں گذشتہ بیس سال کے دوران ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد جس طرح کا منافقانہ طرز عمل نظر آیا اور جس طرح کی بناسپتی مذمتیں کی جاتی رہی ہیں ہم نے ہمیشہ ان رویوں کی مذمت بھی کی اور ان کی کھل کر نشاندہی بھی کی لیکن سچی بات ہے کہ منگل کو ٹی وی پر قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھی جس میں خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ کے ساتھ پشاور سے رکن قومی اسمبلی نور عالم کی تقاریر سنی تو پہلی مرتبہ ہمیں رٹی رٹائی مذمتوں اور الفاظ سے ہٹ کر کچھ ایسی باتیں سننے کو ملیں کہ جنھیں ہم دہشت گردی کی حقیقی وجوہات کہہ سکتے ہیں۔انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر بتایا موجودہ دہشت گردی کے بیج جنرل ضیاء کے دور میں بوئے گئے اور ایک مرتبہ دوسروں کی جنگ میں کود کر ہم نے سبق حاصل نہیں کیا اور ایک مرتبہ پھر یہی غلطی ہم نے مشرف دور میں کی جس کا خمیازہ گذشتہ دو دہائیوں سے ملک و قوم بھگت رہے ہیں۔وفاقی وزارء نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ جس طرح اس سانحہ کی مذمت کی جانی چاہئے تھی اس طرح نہیں کی جا رہی۔ 2014میں آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد آپریشن رد الفساد کے نتیجہ میں دہشت گردی کا کم و بیش خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بھی یقینا ان کے سلیپنگ سیلز ہوں گے لیکن موجودہ دہشت گردی کی لہر بے وجہ نہیں آئی بلکہ اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں کہ جن کا انکار بھی ممکن نہیں ہے۔ افغانستان میں جب طالبان حکومت قائم ہوئی تو ہر محب وطن شخص نے اس وقت کی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ہمیں محتاط ہو جانا چاہئے لیکن ہم محتاط کیا ہوتے تحریک انصاف کی حکومت نے جو کام کیا اس کے بعد یہی سب ہونا تھا۔ ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لایا گیا جو واپس نہیں گئے۔اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں اور یہی لوگ ہیں جو گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کے لئے ڈالروں کی بوریاں بھر بھر کر افغانستان سمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں۔ جو لوگ گذشتہ 45سال سے تذویراتی گہرائیوں کے چکر میں افغانستان کے عشق میں مبتلا ہیں اور اس نامراد عشق نے پاکستان کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دی ہیں لیکن ان کا عشق جو در حقیقت اربوں ڈالر کی جہاد انڈسٹری کے گرد گھومتا ہے۔ 70ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی المناک موت اور کھربوں ڈالر کے معیشت کو نقصان کے بعد بھی ان کا عشق ختم نہیں ہوا۔
ان دہشت گردوں سے کس کو عشق ہے اور کس کی ان کے ساتھ پیار محبت کی پینگیں ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ملا فضل اللہ کے ترجمان مسلم خان سمیت تحریک طالبان کے 100سے زائد گرفتار دہشت گرد جن میں موت کے قیدی بھی تھے انھیں 2021میں صدارتی آرڈیننس کے تحت کس نے رہا کرایا اور آج سانحہ پشاور کے بعد بھی عمران خان کا دل نرم نہیں ہوا اور پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ پر ایک طرف کھڑی ہے اور عمران خان اب بھی ان سے مذاکرات کی بات کر کے پوری قوم اور خاص طور پر شہداء کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں اور اب بھی ان سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔ کسے علم نہیں کہ طالبان کا شروع دن سے ایک ہی وتیرہ ہے کہ انھوں نے مذاکرات کی آڑ میں اپنے آپ کو منظم کرنے اور مزید دہشت گردی کرنے کے مواقع حاصل کئے ہیں اور پھر موجودہ دہشت گردی کی کوئی وجہ بھی تو ہو کہ کس بات پر یہ انسانیت کے دشمنوں نے گذشتہ چالیس سال کے احسانوں کے بدلے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر نشانے پر رکھ لیا ہے۔ اگر ماضی میں مذاکرات سے دہشت گردی میں کمی یا اس کا خاتمہ ہوا ہوتا تو ہم یقینا مذاکرات کی حمایت کرتے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ان کے خلاف آپریشن سے ہی ہوا ہے لہٰذا ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ ان اسلام اور ملک دشمنوں کے خلاف مزید وقت ضائع کئے بغیر کارروائی شروع کی جائے اور اس مرتبہ کمر توڑنے کے دعوے نہیں بلکہ ملک و قوم کی اگر بھلائی مقصود ہے تو حقیقت میں ان کی اور ان کے بیانیہ کی اس طرح کمر توڑی جائے کہ مستقبل میں دوبارہ یہ مسئلہ سر نہ اٹھائے۔