یوم یکجہتی کشمیر……محض خانہ پوری یا رسمی کارروائی!

یوم یکجہتی کشمیر……محض خانہ پوری یا رسمی کارروائی!

پچھلی صدی کے نوے کے عشرے کے ابتدائی برسوں سے کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ہر سال پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔  جماعت اسلامی پاکستان کے اُس وقت کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی تحریک پر یہ دن منانے کا سلسلہ شروع ہو ا تو بلا شبہ شروع  شروع میں جس جوش و جذبے، قومی یکجہتی، اتحاد و اتفاق اور کشمیریوں سے اظہارِ یگانگت اور اُن کی جدو جہدِآ ٓزادی کی تائید و حمایت کے لیے جلسے، جلوسوں، ریلیوں، مذاکروں اور سیمینارز کے انعقاد کا  جومظاہرہ سامنے آتا رہا وہ اتنا بے مثال اور بھر پور ہوتا تھا کہ لگتا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔اور اس مسئلے کے حل کے لیے دل و جان سے پوری قوم کوشاں ہی نہیں ہے بلکہ ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے بھی تیار ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب جب  یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہوئے تین عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے تو ایسے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا روایتی جوش و جذبہ اور مظلوم کشمیریوں سے یکجہتی کا مظاہر ہ ہی مفقود نہیں ہو چکا ہے بلکہ یومِ یکجہتی کشمیر منانا بھی محض خانہ پوری یا ایک طرح کی رسمی کارروائی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔اسے المیہ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ کشمیر جسے بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور مسئلہ کشمیر جس کے بارے میں قوموں کے لیے حق خود ارادیت  کے حصول کے مطالبے پر مبنی ہمارا موقف ہر لحاظ سے جائز اور صحیح ہے، اسے ہم نے جہاں زیب طاق نسیاں کر رکھا ہے  وہاں اس کے بارے میں ہر سطح پر خواہ وہ حکومتی سطح ہو، قومی اور عوامی سطح ہو یا ابلاغِ عامہ کی سطح ہو، غرضیکہ ہر سطح پر ہماری بے حسی، بے رخی  اور بے نیازی نمایاں ہو کر سامنے آ رہی ہے۔  
معروضی صورتحال کا یہ رخ اپنی جگہ، لیکن دیکھنا ہو گا کہ کشمیر کا مسئلہ ہے کیا اور بھارت اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑے تنازعے کے طور پر وجہ نزاع کیوں بنا ہوا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اس کی وجہ سے نہ صرف جنگیں ہو چکی ہیں بلکہ اس سے ہٹ کر کئی بار جنگ شروع ہونے کی نوبت بھی آ چکی ہے توآخر ایسا کیوں ہے؟  اس کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں اور تاریخی و واقعاتی پس منظر اور پیش منظر پر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر جہاں مسلمانوں کی آبادی نوے فیصد سے بھی زیادہ تھی وہاں وہ حکمران ہندو ڈوگرہ خاندان کے ہاتھوں بنیادی حقوق سے محروم دوسرے درجے کے شہری بن کر غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ اُن کے لیے حالات انتہائی تکلیف دہ تھے اور وہ اس سے نجات چاہتے تھے۔  برصغیر جنوبی ایشیا میں انگریزی راج سے آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو کشمیر ی مسلمانوں  میں بھی ہندو ڈوگرہ راجا کی حکمرانی سے نجات پانے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی تحریک بھی شروع ہو گئی۔ اس طرح کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور ڈوگرہ راج کے خلاف ان کی بغاوت کے بارے میں یہ کہنا شاید غلط نہ ہوکہ یہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی انگریزی راج 
سے آزادی کی تحریک کے شانہ بشانہ شروع ہو گئی تھی۔ مارچ 1931 میں سری نگر میں ڈوگرہ  راج کے خلاف مسلمان مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا تو پورے کشمیر میں مسلمان احتجاج کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مارچ 1940 میں  لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے چار ماہ بعد جولائی 1940 میں کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے کشمیر کی آزادی کے لئے باقاعدہ قرار داد منظور کی اور اپنے قائد احرار ملت چودھری غلام عباس مرحوم کی قیادت میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو اپنی منزل قرار دیا۔ 3 جون 1947 کو تقسیمِ ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا جس میں ہندوستان کی نیم خو د مختار ریاستوں کو جو براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھیں یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اپنے عوام کی خواہشات کا خیال رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکیں گی یا اپنی نیم خود مختار حیثیت برقرار رکھ سکیں گی۔ کشمیر کا ڈوگرہ ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ جو کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے شروع کی جانے والے تحریک کی بنا پر مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتا تھا وہ کسی صورت میں کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتا تھا۔ اس صورت حال کو سمجھتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جمو ں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 1947 ء کو واضح لفظوں میں یہ مطالبہ کیا کہ ”چونکہ جغرافیائی، مذہبی، تاریخی اور ثقافتی ہر لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ ریاست جمو ں و کشمیر اور گلگت و لداخ کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو لہٰذا مہاراجہ ہری سنگھ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر اُس نے اس کے برعکس کوئی فیصلہ کیا تو کشمیری عوام اُس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونگے“۔ 
 14 اگست 1947 کو ہندوستان میں دو آزاد مملکتوں پاکستان اوربھارت کے وجود میں آنے کے بعد کشمیرکے پاکستان سے الحاق کے کشمیری مسلمانوں کے مطالبے میں اور شدت آگئی اور پورے کشمیر میں مسلمان اس مطالبے کے حق میں ڈوگرہ راج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان سے ملحقہ کشمیر کے علاقوں کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرا لیا گیا اور 24 اکتوبر 1947 کوآزاد کشمیر حکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ شروع میں کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں بھی نہیں تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو،گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل کے دباؤ پر اس نے 26 اکتوبر 1947 کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اور اسکے ساتھ ہی بھارتی فوجیں جو پہلے خفیہ طور پر ڈوگرہ مہاراجہ کی حمایت کے لئے کشمیر میں موجود تھیں اب کھلم کھلا مسلمان مجاہدین کوکچلنے کے لیے حرکت میں آگئیں۔پاکستان کو بھی اپنے فوجی دستے کشمیر میں بھیجنے پڑے یکم جنوری 1948 کو بھارت کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں لے گیا۔اقوام متحدہ کی کوششوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اورطے پایا کہ کشمیری حقِ خود ارادیت کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہونگے اورآزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکیں گے۔ بھارت شروع میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیاں کراتا رہا لیکن بعدمیں وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر ان قراردادوں سے منحرف ہو گیا۔
مسئلہ کشمیر کے اس پس منظر اور پیش منظر اور معروضی حالات و واقعات کے تذکرے سے یقینا اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن سچی بات ہے کہ یہ سب نصابی باتیں ہیں اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ ہم ایکطرح کے LOOSER  (نقصان اُٹھانے والے) اور بھارت WINNER  بنا ہوا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کی جیت کو ہار میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ورنہ برسرِ زمین حقیقت یہی ہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور عالمی رائے عامہ بھارت کے اس موقف کو رد کرنے کے لیے تیار نہیں۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد ہو اور کشمیریوں کو حق خودارادیت کے تحت آزادانہ رائے شماری کا حق ملے اور وہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرنیکا فیصلہ کرلیں۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی رائے عامہ دن بدن ہمارے اس موقف کا جو ہر لحاظ سے جائز اور مبنی پر حقائق اور انصاف ہے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم کشمیر کئے مسئلے پر کئی برادراسلامی ممالک کی مصلحت آمیز پالیسیوں کی وجہ سے اُن کی کھلم کھلا حمایت سے ہی محروم نہیں ہو چکے ہیں بلک بڑی عالمی طاقتوں میں سے بھی کوئی مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کی کھلم کھلا تائید کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔  
اسے المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے یا ا سے کشمیریوں کی بد نصیبی اور بد قسمتی کا نام دیا جا سکتا ہے یا ہماری کوتاہیوں اور غلط فیصلوں اور مواقع سے بروقت فائدہ نہ اُٹھانے کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں کی لازوال تحریک آزادی ابھی تک کامیابی سے ہم کنارنہیں ہو سکی۔ سات عشروں سے جاری اُن کی جدوجہدِ آزادی قربانیوں اور ناکامیوں کی ایسی داستان بنی ہوئی ہے جس کی قوموں کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی قربانیاں ہو سکتی ہیں کہ ایک خطہِ ارض پر  بسنے والے لاکھوں افراد اپنے اوپر مسلط کی جانے والی غلامی اور جبر و استبداد کے خلاف اتنے طویل عرصے سے برسر پیکار ہوں، لاکھوں افراداپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہوں بستیوں اور آبادیوں کے قبرستان شہیدوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہوں، ظلم وستم اور جبرو استبداد کا بازار گرم ہو اوراسکے خلاف ہڑتالیں احتجاجی مظاہرے، خونریز ہنگامے اور جلسے جلوس روز کامعمول بنے ہوئے ہوں لیکن پھر بھی اس خطہ ارض پر بسنے والے آزادی، خودمختاری اور اپنی منزل مقصود کو پانے سے محروم ہوں۔ یہ خطہ ارض جنت نظیر کشمیر ہے جو گزشتہ تقریباً سات دہائیوں سے اس المناک صورت حال سے دوچار ہے۔  آخر میں کشمیری حریت پسندوں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے  ؎
کون سی وادی میں ہے کونسی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلہ سخت جاں