ٹٹ گئی تڑک کرکے……اسمبلی

ٹٹ گئی تڑک کرکے……اسمبلی

پنجاب کے دریاؤں میں اتنی طغیانی کبھی نہیں آئی جس قدر پنجاب کی سیاست میں لہروں کی یورش ہے۔ گزشتہ برس پنجاب اسمبلی مچھلی منڈی بنی رہی جیسے تیسے منتخب ہوئے اسمبلی ممبران نے یہ سمجھ لیا کہ یہ اسمبلی ان کی ذاتی عناد اور عہدوں کے لیے بنی تھی خیر ”ٹٹ گئی تڑک کرکے“ 
جمہوریت کے تابوت میں ٹھکے کیل بتاتے ہیں کہ کسی کوبھی ”اس جمہوریت“سے دلچسپی نہ تھی ”سروں“ کی گنتی تھی بندوں کے عوضانے تھے ایک گنتی تھی جوادھر پوری کردی جاتی تو ادھر اُدھر پوری ہو جاتی تو اُدھر ……زیادہ لڑائی ہو جاتی تو عدالتوں کو ثالثی کرنا پڑتی اس سارے قضیے میں عوام کہیں موضوع بحث نہ تھے۔ ان کے مسائل کبھی موضوع سخن نہ رہے، یہ اسمبلی ممبران اپنے اپنے مالکوں کے اشارے پر سرپھاڑ دیتے تھے۔ مقدمے رہائیاں اور ایک دوسرے کی کرپشن کے قصے سنانا ہی منشا و مدعا تھا…… کوئی بل بھی پاس کرنے میں صحت وتعلیم کے مسائل بھی کس چڑیا کا نام ہیں  مگر نہیں یہاں تو روز بندے ہی پورے ہوا کرتے بندے بکتے بندے خریدے جاتے بیچے جاتے بندے پورے کیے جاتے۔ 
کسی نے اس دوران مؤقف کی بات نہیں کی نظریے کا رونا نہیں رویا جنرل الیکشن سے لے کر ضمنی الیکشنوں تک ”دھاندلی“ دھاندلا“ کنٹینر ٹرک سڑکیں بند اور اداروں کو گالیاں چلتی رہیں۔ 
بھلے مانسوں نے اتنا نہیں سوچا کہ آپ حملہ کریں گے تو جوابی حملہ آئے گا اور پھر یہ بیت بازی رکنے کی نہیں اس کار زیاں میں عوامی مسائل کہاں فٹ ہوں گے اتنی لڑائی ساس بہو نند بھابھی اور حتیٰ کہ میاں بیوی میں بھی نہیں ہوتی کہ پورے محلے کا جینا محال ہو جائے میاں بیوی کا تو کاغذی معاہدہ ٹوٹ جائے تو پھر علاوہ گھٹیا لوگوں کے اچھے گھرانوں کے لوگ تو ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے ……
خون کے رشتے ختم نہیں ہوتے مگر دور ہو جاتے ہیں، یہ سیاسی رشتے کیسے ہیں جو ہمہ وقت لڑتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ عمر گزار کے بھی قربت کے ایک لمحے کی قدر نہیں کرتے جنہیں رفاقت کا احترام نہیں، بس برائیاں اچھال رہے ہیں وڈیوز لانچ کررہے ہیں آڈیوز نکال رہے ہیں پھر جوابی فلم چلتی ہے اس میں نئی نسل تباہ ہوتی ہے تو ہو……اقتصادی  بدحالی بڑھتی ہے تو کیا، معاشرے میں ابتری اور بے چینی جس مقام پر آچکی ہے اس سے کسی کو فرق نہیں پڑنے والا۔ 
آج پنجاب کی بیڑیوں میں جس نے  بھی ”وٹے“ ڈالے ہیں وہ بے نیاز ہے کسی کو اس گلرنگ صوبے سے محبت نہیں کے پی کے عوام اور بلوچستان کے عوام کی سوچ تو ویسے ہی سرداروں کے زیرطبع ہے۔ پنجاب اور سندھ کا سیاسی شعور آج مفاد پرست سیاست دانوں کی بھینٹ چڑھا ہے۔ یہاں کوئی وارث شاہ بھی پیدا ہوا تھا کسی نے ونجھلی کی تان پر محبت بھی ثبت کی تھی یہاں کے درویش صوفی ادب علم ڈرامہ بھی کوئی مقام رکھتے ہیں یا یہ سارا میلہ محض سیاست دانوں کو اسمبلی میں سیٹیں دلانے اور بار بار دلانے کے لیے سجا ہے کیا پوری  تاریخ پنجاب اس وقت ”بین“ نہیں ڈال رہی جہاں پینتیس پینتیس روپے لیٹر ہی پیٹرول ایک جھٹکے میں مہنگا نہیں کردیا جاتا بلکہ پینتیس پینتیس سیٹوں سے ایک لیڈر الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کردیتا ہے جہاں پینتیس پینتیس پنکچر لگنے کی بات بھی ہوتی ہے نہیں ہوتا تو پنجاب کے دلکش کلچر کا تذکرہ نہیں ہوتا ……
مجھے لگتا ہے سیاستدان نہ کبھی مطالعہ کرتے ہیں نہ انہیں تاریخ کا پتہ ہے (اکثر خان کی تقریروں کا مطالعہ پاکستان اور ہی ہوتا ہے) نہ ادب نہ شاعری نہ مصوری گیت ٹپے ماہیے کی ریاست تو بالکل ہی ناممکن ہے، بس الیکشن الیکشن کھیلنا ہی مطمع نظر ہے اور اس کے بعد دھاندلی کا ہردوطرفہ نعرہ اور پانچ برس کا چھم سے گزر جانا کبھی ”پینگ“کا ٹوٹ جانا کبھی ”ہلارہ“ ہی اتنا بڑا کہ کرسی سے گر جانا ……
موجودہ پنجاب اسمبلی میں بال نوچے گئے بازوٹوٹے پلستر چڑھے عورتوں نے نوجوان بچوں کے سروں پر ہیلمٹ مار مار کر مخصوص سیٹوں پر آنے کا حق ادا کیا پرویز الٰہی جتنا اپنے اقتدار کو کھینچ تان کر طول دے سکتے تھے دیا، اس کے بعد کوئی قانونی موشگافی بچی ہی نہیں جس کا سہارا لے کر وہ مزید حکومت کرتے خان نے کہا (حسب معمول)”نہ کھیڈاں گے نا کھیڈن دیاں گے“ انہیں تخریب کاری میں عجب لذت ملتی ہے وہ اقتدار میں آنے سے پہلے بھی کہہ رہے تھے گورنر ہاؤس کی ”کند“ ڈھادوں گاوزیراعظم ہاؤس تعلیم کا ادارہ بنادوں گا ہزاروں لاکھوں میل بے آباد زمینوں کو چھوڑ کر بنے بنائے وزیراعظم ہاؤس کو ختم کرنے کا مطلب دوسرے ملکوں کے صدور وحکمرانوں کی آمد پر پابندی افغانیوں سے محبت ملک کو ریورس کرنے کا طریقہ ہے محض۔ 
لوگ منگنیاں توڑتے ہیں موصوف نے وٹس اپ ای میل پر شادیاں توڑیں کمال یہ کہ محض اپنی ہی نہیں اپنی شادی کے لیے دوسروں کی شادیاں بھی توڑیں۔……
اب توڑنے کی عادت ہوتے ہوئے اسمبلیاں اور وہ بھی اپنی اسمبلیاں توڑنے تک جا پہنچی ……حالانکہ بنی بنائی حکومت توڑ کے دوبارہ پھر وہی تعداد والی حکومت بنانا محض ایک جنون ہے بنتی تو دوصوبوں ہی میں دوبارہ حکومت ……
خود اپنے آپ کو ہاتھوں سے توڑ کر جیسے
 بڑا کمال کیا تم کو چھوڑ کر جیسے 
تخریب کاری ہتھیاروں میں نہیں ہوتی ذہن میں ہوتی ہے رشتے توڑتے توڑتے لوگ ملک توڑنے لگ جاتے ہیں بنانے والی نیچر اور ہوتی ہے اور اس کے لیے دلیل کوئی نہیں کہ اگر گھر کی ایک دیوار ذراسی ٹیڑھی بن گئی تو توڑ دو ایسا نہیں ہوتا یا اگر چلتے ہوئے گھر میں ایک لڑاکا بہو آگئی تو سارا گھر ہی خراب ہو جائے ایسا نہیں ہوتا بلکہ سارا گھر اپنے مسلسل مثبت رویے سے خراب رویے کو بھی درست کرلیتا ہے مگر اب کے تو بقول امرتاپرہتم ……
کسے نے پنجاں پانیاں وچ 
دتا زہر ملا ……
اپنے شعر بھی یادآگئے ……
کجھ مندر کجھ مسیتے نیں 
کیہ ونڈھ اونے کیتے نیں 
تیلے توں تیلہ وکھر ااے 
ہن ویری چپ چپیتے نیں 
ویسے تو پورے ملک کے لیے دعا ہے مگر بطور خاص پنجاب کے لیے ربا سوہنیا سچ مچ کا پنجاب سے پیار کرنے والا لیڈر دے…… جو پنجاب اسمبلی کا مان ہو اس کا قریہ قریہ سجا دے اس کے دریاؤں میں محبت کی خوشبو کو گھول دے جسے دوسرے سیاست دانوں  کے عیبوں سے مطلب نہ ہو جو اپنی منتخب شدہ مدت کو عوام  کی امانت سمجھتا ہو جو اپنے پانچ برسوں کو الزام تراشی حیلے بہانے اور کردار کشی کے کلچر کو فروغ نہ دے اور ایسا کلچر وضع کرے جس میں جھوٹ الزام تراشی عیب جوئی اور جیل جانے کو لیڈری نہ سمجھے جسے اپنی اپنے خانوادے اور ملک کی عزت عزیز ہو۔……