سردیوں کا موسم شروع ‘دمہ کے مریض اپنا بچاؤ کیسے کریں؟

ڈاکٹروں کے تجربہ کے مطابق دمہ میں مبتلا افراد سردیوں کے موسم میں مقوی غذا نہیں کھاتے، جس سے ان کے جسم میں کمزوری پیدا ہوتی ہے

سردیوں کا موسم شروع ‘دمہ کے مریض اپنا بچاؤ کیسے کریں؟

لاہور : ڈاکٹروں کے تجربہ کے مطابق دمہ میں مبتلا افراد سردیوں کے موسم میں مقوی غذا نہیں کھاتے، جس سے ان کے جسم میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور مریض مختلف انفیکشنز کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان کی یہ بھی رائے ہے کہ دمہ میں مبتلا افراد کو ہر قسم کے میوے اور سبزیاں اپنی غذا میں شامل کرنا ضروری ہے، اسی طرح دودھ، دہی، مکھن گوشت، پنیر کا استعمال بھی ضروری ہے۔

آج کل دمہ میں مبتلا افراد Inhaler کا استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹری تحقیق کے مطابق Inhalers کا استعمال دمہ میں مبتلا افراد کے لئے بے حد مفید ہے۔ ان کے استعمال سے مریض اس کا عادی نہیں ہوتا، اس کے مناسب اور موزوں استعمال سے پھیپھڑے متاثر نہیں ہوتے، جو دوائیاں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچتی ہیں، وہ مقدار میں بہت کم ہوتی ہیں اور پھر بہت زیادہ پراثر ہوتی ہیں، ان کا ذیلی ردعمل بھی بہت کم ہوتا ہے۔ Inhalersآسانی سے استعمال کئے جا سکتے ہیں اور کم خرچ ہوتے ہیں اور مریض کو فوری آرام ملتا ہے، تاہم موسم سرما میں حسب ِذیل صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے.

٭خارجی، ظاہری یا حساسیتی (الرجی) ٭باطنی، داخلی یا غیر حساسیتی (الرجی) ٭دمہ خارجی، ظاہری یا حساسیتی زیادہ عام ہے، جو عام طور پر بچپن میں ہی شروع ہو تا ہے۔ اس قسم کے دمہ میں مبتلا بچے اور ان کے قریبی رشتہ دار کسی خاص قسم کی حساسیت (الرجی) کے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو وقتاً فوقتاً مختلف چیزوں کیساتھ الرجی ہوتی ہے، جو خاص محرکات خارجی ان کے اندر حساسیت پیدا کرتے ہیں ان میں زرِ گل (پھولوں کا ریزہ)گھروں کے اندر اٹھنے والے گرد و غبار میں باریک کیڑے مکوڑے، جانوروں کی گندگی، تکیوں اور کمبلوں میں بھرے ہوئے جانوروں کے پر، مختلف قسم کی غذائیں اور کچھ کیمیائی مادے قابل ذکر ہیں۔ یہ چیزیں یا ان کی بُوسانس لیتے وقت پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہیں اور حساسیت پیدا ہو جاتی ہے، جس سے دمہ کا حملہ شروع ہوتا ہے۔ ٭دمہ باطنی، داخلی یا غیر حساسیتی دمہ کی یہ قسم سن بلوغت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس میں فرد نہ تو خود کسی حساسیت کا شکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی قریبی رشتہ کسی خاص حساسیت کا شکار ہوتا ہے۔ ان افراد میں دمہ کا حملہ کسی وائرسی انفکشن کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ان افراد میں قابل ذکر محرکات خارجی نہیں ہوتے، لیکن دس فیصد مریض دوائیوں کے لئے حساس بن جاتے ہیں، جن میں اسپرین قابل ذکر ہے، یعنی اگر یہ لوگ اسپرین استعمال کریں تو ان پر دمہ کا حملہ ہوسکتا ہے۔ یہ دمہ کی ایک اور قسم بھی ہے، جو کچھ خاص دوائیاں استعمال کرنے سے شروع ہوتا ہے۔

ان دو قسموں کے علاوہ ایک اور قسم کا دمہ ہے، جسے مخلوط قسم کہتے ہیں، جس میں مریض نہ اولین اور نہ دائمی قسم میں فٹ ہوتا ہے۔اب سوال یہ ہے (جو عام طور ڈاکٹروں سے پوچھا جاتا ہے)کہ دمہ اور الرجی میں کیا فرق ہے؟ الرجی یا حساسیت انسانی جسم کے کسی بھی حصہ کا غیر معمولی ردعمل ہے، جو کسی بیرونی حالت یا ایجنٹ کی وجہ سے واقع ہوتا ہے جبکہ دمہ نتیجہ ہے، الرجی کا، جس کا تعلق سانس کی نالیوں سے ہے۔ دمہ سانس کی نالی اور پھیپھڑوں سے تعلق رکھتا ہے جبکہ الرجی جسم کے کسی بھی حصہ کا عکس العمل ہوسکتا ہے۔ دَمہ (استھما) یونانی لفظ ’’ازما‘‘AZMA سے ماخوذ ہے اوران دنوں یہ ایک عام بیماری ہے، جو کسی بھی عمر میں لاحق ہوسکتی ہے۔ مختلف تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ یہ بیماری زیادہ تر بچوں اور (سن بلوغت سے قبل) نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ بچوں میں یہ بیماری یا تو ایک مزمن مرض کا روپ دھار لیتی ہے یا سن بلوغت کے بعد خود بخود غائب ہو جاتی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق ثابت ہوا ہے کہ ا گرچہ یہ بیماری عمر کے کسی بھی موڑ پر گھیر لیتی ہے مگر پچاس فیصد افراد عمر کے دسویں سال سے پہلے ہی اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور جہاں تک بالغ افراد کا تعلق ہے،تواس سے مرد وزن یکساں طور متاثر ہوتے ہیں، مگر بچوں، لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب لیاجائے،تو لڑکوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔مجموعی طور دمہ کی دو قسمیں ہیں: ٭راہ چلتے اچانک کھانسی شروع ہو جائے، سینے پر دباؤ محسوس ہو اور سانس لینے میں دقت ہو۔ ٭جب باہر سے واپس آ کر گھر میں سانس پوری طرح اور آسانی سے نہیں لی جا سکتی ہو اور سانس لیتے ہوئے منہ سے آواز ’ویز‘نکلتی ہو۔ ٭جب رات کو سانس کی تکلیف یا کھانسی کی وجہ سے نیند میں خلل پڑے اور کھانسی کی وجہ سے بستر سے اٹھنا پڑے۔

٭جب تھوڑی دور چلنے کے بعد سانس پھولنے سے پریشانی محسوس ہو۔ ٭جب کسی سے بات کرتے وقت دوران گفتگو سینے کے اندر دباؤ سا محسوس ہو۔ ٭جب دوائیوں کا اثر کم ہوInhalers بھی اثر نہ کریں اور دوائیاں زیادہ مقدار میں لینا ضروری ہو۔ ٭جب موسم سرما کے آغاز یا اواخر میں مرض شدت اختیار کرے۔ ٭جب سردی، بخار، زکام، کھانسی کی شکایت شروع ہو جائے۔ ٭جب سانس لینے کی انتہائی رفتار میں گراوٹ یعنی کمی واقع ہو۔ بچوں کے ہسپتال میں کام کرنے والے ماہرین امراضِ اطفال کی متفقہ رائے ہے کہ جو بچے کسی خاص قسم کی الرجی کے شکار ہوں اور دمہ کے مرض میں مبتلا ہوں، ان کے لئے سردیوں کے موسم میں احتیاط برتنا لازمی ہے۔

موسم سرما کے آغاز میں درجہ حرارت میں تغیر ہونے کی وجہ سے بچوں میں دمہ کے حملوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان بچوں کو سردی کے موسم میں (خاص کر صبح و شام کے وقت)گھر سے باہر نہ جانے دیا جائے اور نہ سڑکوں اور باغوں میں کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنے کی اجازت دی جائے، اگر گھر سے باہر جانا ناگزیر ہو، تو چہرہ (ناک اور منہ) مفلر سے ڈھانپ لینے کی ہدایت دی جائے۔ ان بچوں کو فضائی آلودگی، دھوئیں ، بو، آلودہ غذائیں اور کیڑے مکوڑوں سے دور رکھنا چاہئے، ایسے بچوں کو کانگڑی کا استعمال نہ کرنے دیا جائے اور جن کمروں میں لکڑی، کوئلہ سے چلنے والی مشین ہو، وہاں بیٹھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایسے بچوں کے لئے حمام کی گرمی یا ہیٹر کی گرمی مناسب ہے۔