عرب اسرئیل تنازع، خاتمہ کی اُمید کِس حد تک؟

عرب اسرئیل تنازع، خاتمہ کی اُمید کِس حد تک؟

یکم نومبرکو منعقدہونے والے انتخابی نتائج نے تمام اندازے غلط ثابت کردیے ہیں غیرمتوقع نتائج پر حیران و ششدر مبصرین کہناہے کہ نئی حکومت سے ملک میں سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو گا اوربار بار حکومتیں گرنے اور انتخابات ہونے کا باب بند ہو جائے گا گزشتہ چار برس کے دوران اسرائیل میں پانچ بار عام انتخابات ہوئے مگر کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی نیز اسرائیل میں بسنے والے عرب ایک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئے مگر حالیہ انتخابات میں غیر متوقع طورپر یاہو کی قیادت میں بننے والے اتحاد نے 120رُکنی قومی اسمبلی نیسیٹ میں چونسٹھ نشستیں جیت کر سبھی کو حیران کردیاہے خیر نیتن یاہوبھی اکیلے نہیں اتحادی حکومت بنا سکے ہیں وجہ جیتنے والی چونسٹھ نشستوں میں سے لیکڈ پارٹی صرف بتیس نشستیں ہی لے سکی جبکہ دوسری بڑی اتحادی جماعت جیوش پارٹی کے امیدوار چودہ نشستیں لے گئے بقیہ نشستوں پردیگر چھوٹی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ٹھہرے نومنتخب وزیرِ اعظم نیتن یاہوکے بڑے حریف یئر لیپڈ کی قیادت میں بننے والا اتحاد بھی اکیاون نشستوں پر کامیابی سے ہمکنارہوسکااب قیافہ شناس پُر امید ہیں کہ نئی منتخب حکومت کے مدت پوری کرنے سے اُسے طویل مدتی پالیسیاں بنانے کا موقع ملے گا۔
 نئی حکومت کوعرب اسرائیل تنازع کے خاتمے کے تناظر میں دیکھیں تویہ اُمید پوری ہونا محال ہے کیونکہ پالیسیوں میں تبدیلی کاکوئی امکان نہیں اِس خیال کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ملک میں دائیں بازو کی ایسی جماعتوں نے حکومت بنائی ہے جن کے سخت گیر ہونے میں کوئی دوسری رائے نہیں لیکوڈ جماعت کے سربراہ یاہونے چھٹی بار وزیرِ اعظم کا حلف اُٹھایا ہے وہ ہمیشہ سے دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ کے قائل رہے اب تو اُنھیں سب سے زیادہ مدت کے لیے وزیرِاعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے لہٰذا وہ پوری کوشش کریں گے کہ آئندہ بھی عوامی اعتماد بحال رکھنے کے لیے سخت گیر اور جارحانہ پالیسی پرکاربندرہیں جس کی بناپر عرب اسرائیل تنازع کے خاتمے کی اُمید رکھنے والے قیافہ شناسوں کے اندازے پورے نہیں ہو سکتے بلکہ نئی حکومت کی تشکیل سے ایران و اسرائیل تنازع میں شدت آنے کا امکان ہے جس سے ایران کی حدتک تنازع مزید سنگین ہوسکتا ہے۔ 
عرب اسرائیل تنازع کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ نئی حکومت مقبوضہ مغربی کنارے میں آبادکاری کو توسیع دینے کے منصوبے پر عمل کرنے سے اجتناب کرے مگر حلف اُٹھانے سے قبل ہی اِس منصوبے کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کاعزم ظاہر کیا جاچکا وہ عرب اسرائیل تنازع کے خاتمے کی تو بات کرتے ہیں لیکن ملک کی فوجی طاقت بڑھانے اور ایران کے جوہری پروگرام کو طاقت کے بل بوتے پر روکنے کاعزم ظاہر کرنے سے نہیں ہچکچاتے اسی بناپر عرب اسرائیل تنازع میں اگر سکون کی موہوم اُمید ہے تو ایران سے ماضی کی بہ نسبت رویہ مزید سخت ہو نا یقینی ہے وجہ یہ ہے کہ اگر اسرائیل میں قدامت پسند اور سخت گیر حکومت بنی ہے تو ایران میں بھی قدامت پسند صدر اپنے رویے میں رتی بھر لچک پیدا کرنے پر تیار نہیں یہ درست ہے کہ دونوں ممالک میں براہ راست ٹکراؤ کاامکان نہیں مگر پراکسی کے ذریعے ایک دوسرے کے اہداف کو نشانہ بنا نے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا۔
تنازعات کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ رویوں میں لچک لائی جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایسا مستقبل ملے جہاں امن و سکون کے ساتھ ترقی و خوشحالی کے سب کو یکساں مواقع ملیں لیکن نیتن یاہواقتدار میں آنے کے لیے انتہائی دائیں بازو کے ہم خیال لوگوں کو ساتھ ملانے میں قباحت تصور نہیں کرتے اور نہ ہی اِس بارے کسی قسم کی تنقید کو خاطر میں لاتے ہیں جیوش پاور پارٹی کے سربراہ بین گویر بھی حکومت میں شامل ہیں جن کا ماضی میں کیچ نامی گروپ کا حامی ہونا کسی سے مخفی نہیں اِس گروپ کو اسرائیلی بھی ایک دہشت گرد کہتے ہیں اسی بناپر نئی تشکیل پانے والی حکومت میں بن گویر کا توسیع شدہ علاقوں کا وزیربرائے سکیورٹی بننا اِس طرف واضح اشارہ ہے کہ نئی حکومت ماضی کی طرح جارحانہ پالیسی نہیں چھوڑے گی کیونکہ بن گویر نہ صرف حفاظتی دستوں کو مزید اختیارات دینے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ مظلوم فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور اسرائیلیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہر انتہا کو عین انصاف قرار دیتے ہیں اسی بناپرخطے میں تنازعات کے خاتمے کی اُمید رکھنا مناسب نہیں بلکہ ایران کے ساتھ تناؤ بڑھنے اور فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ ہونے کا خدشہ ہے عرب ممالک کا صہیونی ریاست تسلیم کرنے اور تعلقات بہتر بنانے کی روش پر چلنا فلسطین کا مقدمہ کمزور کرنے کے مترادف ہوگانیز دوریاستی حل کا امکان معدوم ہوسکتا ہے بن گویر اور نیتن یاہوکی کوشش ہو گی کہ کسی طرح اسرائیلیوں کو یقین دلا دیں کہ وہ اُنھیں دیگر سیاستدانوں سے زیادہ بہتر انداز میں تحفظ فراہم کرسکتے ہیں جس سے عوام میں مزید مقبولیت مل سکتی ہے نئی حکومت کی طرف سے امن پسندی سے زیادہ جارحانہ اقدامات سے عوام کے دل جیت لیں گے اپنی جماعت لیکوڈ پارٹی کے ایک سابقہ وزیر عمیر اوبانا جیسے ہم جنس پرست کو پارلیمنٹ کا سپیکر بنانا اِس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اقتدار کو طول دینے کے لیے وہ ہر انتہا تک جانے کو معیوب نہیں سمجھتے۔
نئی حکومت کی تشکیل پر ملک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں خوفزدہ ہیں اور ایسی بیس تنظیموں نے مشترکہ طورپر عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ دائیں بازو کی نئی صہیونی حکومت مقبوضہ فلسطینی اراضی کے الحاق کو حکومتی پالیسی بنانے کی طرف آسکتی ہے جس سے دریائے اردن اور بحرہ روم کے درمیان انسانی حقوق شدید متاثر ہونے کا خطرہ ہے مقبوضہ علاقوں پر فوجی کنٹرول مستحکم کرنے کے بعد یہودیوں کو نسلی بنیادپر خودمختار کرنا خطے میں بدامنی کو ہوا دینے کے مترادف ہو گا جو انسانی حقوق کی تنظیموں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کا باعث ہے اوروہ اقوامِ عالم سے سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کرنے کی طرف آئی ہیں حال ہی میں امریکی ناپسندیدگی کے باوجود یو این او کی انسانی حقوق کونسل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کے ساتھ تجارت کرنے والی 112 کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا جن میں سے94 کا تعلق اسرائیل جبکہ اٹھارہ کا دیگر ممالک سے ہے ذہن میں رہے کہ عالمی تنظیموں اور یواین او کی قراردادوں کو حکومت پہلے بھی جوتے کی نوک پر رکھتی رہی لہٰذا آئندہ بھی ایسا ہی ہوتارہے گا۔
نئی سخت گیر حکومت بننے سے اسرائیلی آبادکاروں کو اشتعال انگیز حرکات کی ترغیب ملی ہے اور وہ فوج کے محاصرے میں مسجدِ اقصیٰ کے تقدس کو پامال کرنے کے لیے زیادہ پُرجوش اور پُرعزم ہوئے ہیں یہودی آبادکاروں کی طرف سے مذہبی رسومات کی ادائیگی کی آڑ میں مسلم کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے دوران قابض فوج صوتی بم برسانے اور آنسوگیس کی شیلنگ سے مدد کرتی ہے جو عرب اسرائیل تنازع بھلے کم ہو خطے میں امن و سکون مستقل طور پر ناپید رہنے کی طرف اشارہ ہے جب ملک کی پارلیمنٹ ایک متنازع قانون محض اِس بناپر منظورکرلے کہ یاہو وزیرِ اعظم بن سکیں تو عام قوانین پر عملدرآمد کی صورتحال کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ یادرہے نئے قانون کے تحت جُرم ثابت ہونے کے باوجود جسے سز انہ دی گئی ہو وہ شخص ملک کا وزیرِ اعظم بن سکتا ہے اِس قانون سازی سے کئی دیگر اتحادی اراکین کے لیے بھی کابینہ میں جگہ بنی ہے نئے قانون کی منظوری سے ہی صدر آئزک ہرزوگ انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے سیاستدانوں کی حکومت بنانے کی طرف آئے۔
یہ کہنا کہ نئی حکومت زیادہ سخت گیر ہے جبکہ سابقہ حکمران لبرل تھے اِس میں کوئی صداقت نہیں بلکہ لبرل ہویا دائیں بازوکا قدامت پسند، ہر اسرائیلی حکمران جارحانہ عزائم اور توسیع پسندانہ پالیسیوں پر یقین رکھتا ہے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے وزیرِ دفاع بینی گینز ایرانی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی تیاریوں کو مزید بہتر بنانے کی بات کرتے ہوئے کہہ چکے کہ کسی وقت بھی اسرائیلی فضائیہ کوایران پرحملے کا حکم دیا جا سکتا ہے نیز اگلے دوتین برس کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کر سکتے ہیں کچھ ماہرین کہتے ہیں  یہ محض بڑھک ہے لیکن نیتن یاہو مقبوضہ مغربی کنارے کی بستیوں کو ضم کرنے کے معاہدے سے پیچھے ہٹ کر سعودی عرب سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا غیر متوقع اعلان کر سکتے ہیں اسی بناپرایران کو دی جانے والی دھمکیوں کو سعودیہ کا دل جیتنے کی کاوشوں کا حصہ سمجھا جاتا ہے عبرانی روزنامہ Aharonot yediot نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکہ،اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان جاری بات چیت کا انکشاف کرچکا جس کی تکمیل سے صدرٹرمپ کے 2020 معاہدے ابراہیم کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرنے اور تعلقات قائم کرنے والاسعودی عرب خطے کا پانچواں عرب ملک بن جائے گا مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے عمل درآمد سہل نہیں ہوگاکیونکہ ایسے کسی بھی فیصلے سے مسلم حلقے خفا ہوں گے  جوملک میں سیاسی عدمِ استحکام کی نئی لہر جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔