پرویز الٰہی کا کالا قانون……

Shafiq Awan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

لاہور پریس کلب میں سپیکر پنجاب اسمبلی کی طرف سے میڈیا کی آزادی کے خلاف بنائے گئے نئے ڈریکونین قوانین کو روکنے کے لیے ملک بھر کی نمائندہ تنظیموں کے ایک اجلاس میں پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کے زیر صدارت شرکت کی۔ اصل میں تو یہ کام تو صحافی یونینز کا ہے لیکن وہ اتنی تقسیم در تقسیم ہو چکی ہیں کہ ہر دھڑے کی بولی الگ الگ ہے۔ ایسے میں غنیمت ہے کہ سب کہ لیے پریس کلب ہی غیر متنازع اور مشترکہ پلیٹ فارم ہے اور خوشی کی بات ہے کہ اس اجلاس میں سب دھڑے شریک ہوئے۔ اس بل کو ”The Provincial Assembly of the Punjab Provincial Priviliges Amendment bill 2021“ کا نام دیا گیا ہے جبکہ اراکین کے استحقاق کی آڑ میں یہ میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے جس بھی رکن اسمبلی سے بات کی اس نے اس بل کا آرکیٹکٹ سپیکر اسمبلی کو قرار دیا۔
یہ بل اخبارات اور جرائد کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی برابر لاگو ہوتا ہے۔ اب اینکر حضرات یا ان کے مہمان بھی کسی رکن اسمبلی اور سپیکر پر تنقید کریں گے تو قابل گرفت ہوں گے۔ اس بل کی شق نمبر چھ تا گیارہ صحافیوں پر اسمبلی رپورٹنگ پر آمرانہ قدغن سے متعلق ہیں۔ اس بل کے ذریعے یہ کوشش کی گئی ہے کہ جب تک پریزائڈنگ افسر نہ چاہے عوام تک اسمبلی میں ہونے والی کارروائی، بننے والے قوانین، عرصے سے زیر التوا رپورٹس شائع نہ کی جا سکیں۔ رپورٹس کو اسمبلی میں پیش نہ ہونے دینا تو ہر حکومت کی ترجیح ہوتی ہے تا کہ ان کی غلط کاریاں ایکسپوز نہ ہو سکیں۔ اگر صحافی اپنے ذرائع سے یہ رپورٹس حاصل کر کے شائع کرے گا تو قابل گرفت ہو گا۔ یعنی اپنی کسی بھی قسم کی غلط کاریوں کو درست کرنے کے بجائے اس پر قانون سازی کے ذریعے پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں پریزائیڈنگ آفیسر یعنی سپیکر اسمبلی کو مہاتما یا ایک ڈکٹیٹر بنا کر پیش کر دیا گیا ہے۔ ان کے لیے عرض ہے کہ عزت بندوق کی نوک یا آمرانہ قوانین بنا کر نہیں کرائی جا سکتی بلکہ آپ کا کردار عزت کراتا ہے۔
ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے پنجاب اسمبلی سے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر 
منظور کئے گئے آزادی صحافت کے مخالف قانون کو جمہوریت کے چوتھے ستون پر بدترین حملہ قرار دیتے ہوئے مشترکہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برصغیر کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی ایسا کالا قانون منظور نہیں کیا گیا جس کے تحت ارکان اسمبلی اور اسمبلی سیکریٹریٹ کے افسروں پر مشتمل عدالتی کمیٹی کو کسی بھی خبر کو گرفت میں لا کر متعلقہ صحافی کو 3 ماہ کے لئے جیل بھیجنے اور ہزارں روپے جرمانے کی سزا سنانے کا اختیار حاصل ہو اور یہ کمیٹی اسمبلی حدود میں بغیر وارنٹ اور پولیس کے ذریعے صوبے کے کسی بھی حصے سے وارنٹ کے ساتھ گرفتاری کا حکم دے سکے گی۔ یہ بل آئین پاکستان اور قانون کے ساتھ بھی ایک سنگین مذاق ہو گا۔
مجھے حیرت تھی کہ اس اجلاس میں موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی کی جمہوریت اور صحافی دوستی کے قصیدے پڑھے جا رہے تھے۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کی پیدائش ہی ڈکٹیٹر ضیاالحق کے مارشل لا کی کوکھ میں ہوئی اور جس نے ایک اور ڈکٹیٹر مشرف کو دس بار وردی میں صدر منتخب کرانے کے ارادے کا اظہار کیا ہو اور جو اس کالے قانون کا اصل محرک ہو اس کا جمہوری اور صحافتی اقدار سے کتنا تعلق ہو گا، آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ پھر موجودہ سپیکر نے اسمبلی کو قلعہ بند کرتے ہوئے اسے صحافیوں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا ہے۔ وہ کیا معاملات ہیں جنہیں چھپانے کے لیے صحافیوں کا اسمبلی میں داخلہ بند کر دیا گیا۔ ایسی پابندی تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی نہیں ہے۔ ہمیں آنکھیں چھین کر چراغ بانٹنے والی دوستی نہیں چاہیے۔ آزادی صحافت پر ہم قطعاً سمجھوتا نہیں کریں گے اور صحافیوں کی مشترکہ جدوجہد سے انہیں یہ بل ہر حال میں واپس لینا ہو گا۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے سیاسی جد امجد ضیاالحق اور مشرف بھی میڈیا کی آزادی سلب نہیں کر سکے تو ان کے چیلوں کی کیا حیثیت ہے۔ پریس کلب کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر اس کالے قانون کے تحت کسی صحافی کو گرفتار کیا گیا تو سب صحافی رضاکارانہ گرفتاری دیں گے۔
اس قانون کے ذریعے اسمبلی کی خود ساختہ جوڈیشل کمیٹی کو عدالتی اختیارات دے دیے گئے ہیں اور جہاں وہ سمجھیں گے کہ ان کا استحقاق مجروع ہوا ہے وہ اس صحافی کو تین ماہ کی جیل کی سزا کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی کریں گے۔ اب صحافی اسمبلی ممبران کے اسمبلی کے اندر کالے کرتوتوں یا ان کی عجب کرپشن کی غضب کہانیوں کو بھی رپورٹ کریں گے تو اس کالے قانون کی گرفت میں آ جائیں گے۔ اسمبلی سے متعلق کوئی بھی ایکسکلوسو اور انویسٹی گیٹو رپورٹ شائع یا براڈکاسٹ نہیں کر سکیں گے۔ سپیکر، کابینہ اراکین، ممبران اسمبلی حتیٰ کہ اسمبلی ملازمین کے بارے بھی کوئی خبر توہین تصور ہو گی۔ بلکہ اسمبلی کے اندر اراکین کی ہاتھا پائی اور گالم گلوچ کی رپورٹنگ پر بھی پابندی ہو گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قانون بنانے میں مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سمیت پوری اسمبلی اس کالے قانون کے بنانے میں پیش پیش تھی۔ اس میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف، سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور پیپلز پارٹی کے حسن مرتضیٰ سمیت تمام پارلیمانی لیڈر شامل تھے۔ وہ اس قانون کی اسمبلی سے باقاعدہ منظوری کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار نہیں کر سکتے۔ جس خاموشی سے یہ بل پاس ہوا اس سے لگتا ہے کہ یقیناً اس میں انہیں اپنی اعلیٰ قیادت کی آشیر باد بھی حاصل ہو گی۔ سپیکر اسمبلی اور گریڈ 9 سے ترقی پانے والے سیکرٹری اسمبلی نے اس قانون کی ڈرافٹنگ سے پہلے یہ جاننا بھی گوارا نہ کیا کہ یہ قانون آئین میں دی گئی میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی سے بھی متصادم ہے۔
مسلم لیگ ن والے کہتے ہیں کہ انہوں نے سٹینڈنگ کمیٹیوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اس لیے یہ بل کسی کمیٹی میں زیر بحث لائے بغیر بالا ہی بالا سپیشل کمیٹیوں کے ذریعے قانون سازی کر کے پاس ہوا۔ چلیں یہ تو آزادی صحافت سے متعلقہ بل تھا لیکن باقی جو بھی قانون سازی ہو چکی ہے وہ اپوزیشن کے بغیر ہوئی ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا سٹینڈنگ کمیٹیوں کا بائیکاٹ کر کے حکومت کو قانون سازی کے لیے سہولت کاری مہیا نہیں کی گئی؟ کیا یہ بائیکاٹ ختم کر کے وہ عوام کی طرف سے دیے گئے ووٹ کی عزت کا بحال نہیں کریں گے۔
صحافیوں نے کبھی آمرانہ اقدامات کے خلاف گھٹنے نہیں ٹیکے ہم نے تو ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف کی آمریت میں بھی جدوجہد جاری رکھی کوڑے کھائے اور حق کو فتح دلوائی تو آج کے فرعونوں کی کیا اوقات، بہر حال انہیں اس بل کو واپس لینا ہو گا۔
قارئین اپنی رائے کا اظہار 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔