بوسیدہ تعلیمی نظام تباہی کی وجہ

بوسیدہ تعلیمی نظام تباہی کی وجہ

دنیا میں انسان نے 2 بار بڑی تیزی سے ترقی کی ہے پہلی بار جب پہیہ ایجاد ہوا اور دوسر ی بار جب کمپیوٹر ایجاد ہوا۔ گذشتہ 100برس میں جتنی ترقی انسانی دنیا آج دیکھ رہی ہے۔ اتنی ترقی انسانی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ ترقی گذشتہ ہزاروں سال میں نظر کیوں نہیں آئی؟ یہ وہ سوال جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو اس کے بڑے فیکٹرز ہیں۔ ان سو سال میں دنیا کے اکثر ممالک سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوا، سیکولر اور لبرل خیالات کو سوسائٹی میں جگہ ملی۔ دنیا میں جدید ٹرانسپورٹیشن سسٹم آیا، نئی نئی جدید ایجادات ہوئیں۔ جدید ذرائع ابلاغ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا گلوبل گاؤں کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ایک سنگل ٹچ سے دنیا کے کسی بھی کونے کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ دنیا کی اس عظیم ترقی کے باوجود سوال وہیں قائم ہے کہ یہ ترقی کیسے ممکن ہوئی؟ اس کا دولفظی جواب ہے ’’تعلیمی انقلاب‘‘۔ روایتی سماج نے ایک طویل عرصے تک علم دشمنی اور سائنسی ترقی کو روکنے کا کردار ادا کیا۔ یورپ میں جب یہ احساس اجاگر ہوا تو انھوں نے جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے معاشر ے میں روشن خیالی، علم دوستی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ اسی سوچ کی وجہ سے حقیقی جمہوریت کا جنم ہوا۔ ہم مغرب سے اتنے پیچھے کیوں رہ گئے؟ اس کا بھی دو لفظی جواب ہے ’’تعلیمی زوال‘‘۔ ہمیں یورپ سے سیکھنا ہو گا۔ اس کی مثال فن لینڈ سے ہی لے لیں۔ فن لینڈ یورپ کا چھوٹا سا ملک ہے۔ جس کی آبادی لگ بھگ 55 لاکھ اور رقبہ 3 لاکھ 39 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ ہمارے ایک صوبے بلوچستان کے برابر۔ یہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک نہیں مگر اس کے باوجود یہ دنیا کا مالدار ترین ملک ہے۔ فی کس آمدنی 75 ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ جبکہ پاکستان جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال بڑے ملک میں فی کس آمدنی 1250 ڈالر سالانہ ہے۔ فن لینڈ گڈ گورننس میں چھٹے اور کم ترین کرپشن میں تیسرے نمبر پر ہے۔ ان تمام خوبیوں کا راز ان کے نظام تعلیم میں مضمر ہے۔ فن لینڈ میں دنیا کا بہترین تعلیمی نظام رائج ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر سوئٹزر لینڈ اور تیسرے نمبر پر سنگاپور ہے۔ امریکہ کا تعلیمی نظام 20ویں نمبر پر آتا ہے۔ فن لینڈ دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں پر اساتذہ کرام کی عزت اور تکریم، انرئک، ڈاکٹر اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے زیادہ کی جاتی ہے۔ اگر فن لینڈ کے صدر اور وزیر اعظم کو کسی فنکشن میں پتہ چلے کہ اُنکے قریب کوئی سکول، کالج اور یونیورسٹی کا استاد بیٹھا ہے تو اسکو ان اعلیٰ 
شخصیات کی طرف سے انتہائی عزت دی جاتی ہے۔ فن لینڈ تعلیمی لحاظ سے دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں کسی بچے کی تعلیم کا آغاز 7 سال کے عمر تک پہنچنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسکے بر عکس پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں کسی بچے کے تعلیم کا آغاز 3 سے 5 سال سے شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بچوں کے وہ دن ہوتے ہیں جس عمر میں بچوں کو ماں کی نگہداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہم کتابوں کا بوجھ انکے کندھوں پر لاد دیتے ہیں۔ کھیلنے کی عمر میں وہ بے چارہ کتابوں کا نا قابل بوجھ بر داشت اُٹھا کے پھر رہا ہوتا ہے۔ مزید سکولوں میں سختی اور مار پیٹ کا کلچر بچوں کو تعلیم سے دور لے جاتا ہے۔ یہ راز مغرب نے سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ بچہ 7 سال کی عمر تک گھر میں ماں، دادی اور نانی سے سیکھتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ علم کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے۔ جبکہ ہم نے بچوں کو ماؤں کی گود سے دور کر دیا۔ فن لینڈ میں پاکستان کی طرح بچوں سے ٹیسٹ پہ ٹیسٹ اور امتحان نہیں لیے جاتے۔ انہیں عملی سرگرمیوں سے سکھایا جاتا ہے۔ فن لینڈ میں بچوں کی تعلیم کے 6 سال تک نہ تو اسکا کوئی امتحان ہوتا ہے اور نہ ٹیسٹ۔ فن لینڈ بچوں کے باقاعدہ امتحان 16 سال کی عمر میں لیے جاتے ہیں۔ اُنکو عقل، شعور اور چیزوں کو سمجھنے کے لیے اُنکا ذہن بنایا جاتا ہے۔ وہ طالب علم خواہ وہ لائق ہو یا نالائق اُنکو ایک کلاس روم میں پڑھایا جاتا ہے۔ ان کا تعلیمی نظام ہمارے ملک کی طرح طبقاتی نہیں۔ پاکستان میں ایک طرف ٹاٹ کے سکول جہاں پینے کا صاف پانی اور باتھ روم کا کوئی انتظام نہیں ہوتا جبکہ اسکے بر عکس یہاں پر ایچی سن، بیکن ہاؤس سکول اور کالج، آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم اور نہ جانے کیا کیا تعلیمی نظام ہیں۔ جہاں صرف امراء کے بچے جا سکتے ہیں۔ فن لینڈ وہ واحد ملک ہے جو 1948 سے بچوں کو مفت لنچ فراہم کر رہا ہے۔ بچوں کو بیلنس ڈائٹ فراہم کی جاتی ہے تاکہ بچوں کی کارکردگی میں اضافہ ہو۔ ماں باپ پر بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بوجھ کم سے کم ہے یہ ذمہ داری ریاست نے اٹھا رکھی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں بچوں کو پڑھانے کے لیے ماں باپ کو کیا کیا قربانیاں اور جتن کرنا پڑتے ہیں۔ یہ جس تن لاگے وہ ہی جانے۔ فن لینڈ کے 60 فی صد طالب علم کالجوں میں جاتے ہیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور یورپی ممالک کی دیگر ممالکوں کی نسبت بہت زیادہ اور ٹاپ پر ہے۔ سکولوں کالجوں کی ایک کلاس میں سائنس طالب علموں کی تعداد 16 سے زیادہ نہیں ہوتی۔ فن لینڈ میں جو ٹیچر لیے جاتے ہیں وہ ٹاپ 10گریجوایٹ میں سے ہوتے ہیں۔ فن لینڈ ایک سکول ٹیچر کی تنخواہ 40 ہزار ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔ پاکستان میں جو طالب علم سی ایس ایس، پی سی ایس اور دیگر اچھے عہدوں کے امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے تو بعد میں وہ تعلیم کے شعبے میں آ جاتا ہے۔ بلکہ ہر شعبے سے ناکام بندہ جب کچھ نہیں بن سکتا تو وہ سکول ٹیچر بن جاتا ہے۔ فن لینڈ کے نظام تعلیم میں رٹے کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں بی اے، ایم اے، ایم ایس ای، ایم بی بی ایس اور پی ایچ ڈی کے طالب علم بھی رٹا لگاتے ہیں۔ فن لینڈ کا تعلیمی نظام انسانی نفسیات کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ وہاں بچوں کو اساتذہ کرام کلاس روم میں رٹو طوطا بنانے کے بجائے ان کی تربیت اور پیشہ وارانہ امور پر توجہ دیتے ہیں۔ فن لینڈ میں 100 فی صد تعلیمی ادارے حکومتی فنڈ سے چلائے جاتے ہیں اور تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم بات تعلیم قومی زبان میں دی جاتی ہے۔ صرف ہمیں ہی انگریزی کا خبط ہے۔ ہم نے قابلیت کا میعار انگریزی کو بنا رکھا ہے۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہم سے زیادہ ترقی کر چکے ہیں۔ چین نے اپنی قومی زبان میں بچوں کو تعلیم دی، اپنے تعلیمی نظام کی وجہ سے آج چین کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ بنگلہ دیش تعلیم میں 111ویں، بھارت 103ویں اور پاکستان کا 125 واں نمبر ہے۔ ہم نے 75 برس میں بہت سی تعلیمی پالیسیاں بنائیں لیکن ہمارا سفر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف چل رہا ہے۔ یونیسکو کے مطابق ہمارا تعلیمی نظام دنیا سے 60 برس پیچھے ہے۔ یقین جانیں کے دنیا کی حقیقی ترقی ہی اس دوران ہوئی ہے جب کمپیوٹر ایجاد ہوا۔ بطور ایک عام پاکستانی میں ان تمام مسائل اور وجوہات سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ ان کا حل بھی جانتا ہوں۔ کیا ہمارے پالیسی ساز ادارے، ہمارے سیاسی لیڈرز، بیوروکریٹس جو اس تعلیمی نظام کو بنانے اور چلانے کے ذمہ دار ہیں کیا ان حقائق سے آگاہ نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے بہترین مراعات اور تنخواہیں لینے کے باوجود بھی اگر وہ اس نظام کو ٹھیک کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیونکہ اگر ملک میں تعلیم عام ہو گئی۔ لوگوں کو شعور آ گیا تو ان سب کے دھندے اور راج ختم ہو جائے گا۔ سیاستدان، جج، جرنیل اور بیوروکریٹ اپنے بچوں کو انہی ترقی یافتہ ممالک سے تعلیم دلاتے ہیں۔ تاکہ انہیں اس ملک پر حکومت کے لیے تیار کر سکیں۔ کیا یہ ہم اپنے ملک کے ساتھ ظلم نہیں کر رہے۔ میرا ایوان اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں سے سوال ہے کہ ہم فن لینڈ، سویڈن، سوئٹزر لینڈ یا سنگاپور کی طرز پر اپنی ضروریات کے مطابق نظام تعلیم کیوں نہیں بنا سکتے۔ ہم کب تک کلرک پیدا کرتے رہیں گے۔ اگر اس ملک کی تقدیر بدلنی ہے تو ہمیں تعلیمی انقلاب برپا کرنا ہو گا۔

مصنف کے بارے میں