پنجاب کا سیاسی بحران، ضمنی انتخابات

پنجاب کا سیاسی بحران، ضمنی انتخابات

ملک کب اور کیسے سنبھلے گا؟ کیا خاک سنبھلے گا سیاستدانوں کا رخ مقننہ (پارلیمنٹ) کے بجائے عدلیہ کی طرف ہے معزز جج صاحبان حیران ہیں کہ سیاستدان اپنے مسائل کے حل کے لیے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کی طرف کیوں بھاگے چلے آتے ہیں متعدد درخواستیں ان ریمارکس کے ساتھ مسترد یا خارج کر چکے کہ متعلقہ فورمز میں اٹھائیں، بد قسمتی ہے کہ سارے سیاسی فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے عدالتوں میں ہو رہے ہیں۔ رضا ربانی کے گزشتہ دنوں کس دکھ کے ساتھ کہا کہ پارلیمنٹ اپنی خودمختاری سرنڈر کر چکی ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے دو ماہ بعد بھی ملک عدم استحکام کا شکار، حکمرانوں کے چہرے اڑے اڑے، اعتماد سے خالی چہروں پر ماسک چڑھائے 12 کروڑ آبادی کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ابھی تک سر پھٹول جاری وزارت اعلیٰ کا مسئلہ تاحال حل طلب حمزہ شہباز حکومت اور عمران خان پلس پرویز الٰہی جتھہ وزارت اعلیٰ کی جنگ لڑنے کے لیے تیار سیانے کہتے تھے جنگ سے استحکام نہیں تباہی آتی ہے۔ سو آ رہی ہے پارلیمنٹ سو رہی ہے عدالتیں جاگ رہی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے چند روز قبل پی ٹی آئی پلس ق لیگ کی درخواستوں پر فیصلہ سنایا ٹی وی چینلوں پر بریکنگ نیوز چلی کہ ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواستیں منظور کر لیں عجلت پسند نا سمجھ چینلوں نے نعرہ ہائے مستانہ بلند کرنا شروع کر دیے کہ حمزہ شہباز کی حکومت کالعدم قرار دے دی گئی۔ خبر سنتے ہی پی ٹی آئی اور ق لیگ کے رہنما بینڈ باجوں کے ساتھ باہر آ گئے۔ محمود الرشید نے کہا آج کا دن یادگار حمزہ کی حکومت ختم، راجہ بشارت اور دیگر رہنما بھی بغلیں بجاتے اور وکٹری کا نشان بناتے رہے۔ لیکن تفصیلی فیصلہ آتے ہی چمکتے چہرے لوڈشیڈنگ کا شکار ہو گئے جیسے بجلی چلی گئی ہو، پہلے خوشی پھر غم ’’جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں‘‘ مٹھائیوں کے آرڈر دے دیے گئے تھے لیکن تفصیلی فیصلے نے مٹھائیوں میں مرچیں ڈال دیں۔ تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یکم جولائی کو دوبارہ انتخاب کرائیں پانچ مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن روک دیا گیا۔ منحرف ارکان کو نکال کر اکثریتی ووٹ لینے والا وزیر اعلیٰ منتخب قرار پائے گا۔ حمزہ والوں نے کہا ہمارے پاس 177 ووٹ موجود ہیں۔ پی ٹی آئی پلس ق لیگ کے کل ملا کر 168 ووٹ رہ گئے 6 ارکان حج پر چلے گئے 162 ووٹوں کے ساتھ کیسے کامیاب ہوتے۔ مٹھائی کے ٹوکروں میں مرچیں بھر گئیں۔ شہنائی کی آواز ڈوب گئی۔ صف ماتم بچھ گئی۔ فواد چودھری حکومت جانے کے صدمہ سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ شیخ رشید اور فواد چودھری ٹی وی سکرینوں پر کم کم نظر آتے ہیں۔ حکومت میں تھے تو سکرینوں سے ہٹتے ہی نہیں تھے ماشاء اللہ دونوںکے صحت مند چہرے 58 انچ کے ٹی وی سکرین پر بھی بمشکل آتے تھے فواد چودھری تفصیلی فیصلہ آتے ہی نمودار ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے سیاسی بحران اور بڑھ جائے گا۔ شیخ صاحب جن کے بال و پر کٹ چکے ہیں کیا کہتے بولے ڈمی حکومت کا جنازہ جلد نکلے 
گا۔ جولائی اہم ہے کیسے پتا چلا خواب دیکھا حالانکہ خواب بکھر چکے۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کالوں نے نہ کچھ کام کیا۔ سارے دروازے بند ہو گئے۔ بہت پہلے کہا تھا۔ سورج کو آنگن میں لانے کی نادانی مت کرنا، ورنہ تیرے اپنے شجر کی چھاؤں بھی لے جائے گا‘‘ جو اب تک نہیں سمجھے ان سے خدا سمجھے شیخ صاحب بیچ میں کہاں سے آ گئے۔ تفصیلی فیصلے کے حوالے سے عرض کر رہے تھے کہ دوسرے روز ہی پی ٹی آئی پلس ق لیگ کے وکلا دہائی دیتے سپریم کورٹ جا پہنچنے مائی لارڈ ہمارے ساتھ بڑا انہائے ہو گیا۔ الیکشن رکوائیے محترم چیف جسٹس نے 3 رکنی بینچ کے ساتھ درخواستوں کی سماعت اور تین ماہ کا سیاسی بحران تین سیشنوں میں حل کر دیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا الیکشن 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے بعد 22 جولائی کو ہو گا اس وقت تک حمزہ کو وزیر اعلیٰ تسلیم کیا جائے گا۔ قائم مقام وزیر اعلیٰ نہیں کہلائیں گے عمران خان اور پرویز الٰہی سمیت تمام فریقوں نے فیصلہ تسلیم کر لیا جسٹس جمال مندوخیل نے پھر سمجھایا کہ سیاستدان اپنے مسائل خود حل کریں ہمارے پاس آئے تو ہماری بات مانیں۔ سیاستدان اتنے بالغ نظر اور سمجھدار ہوتے تو رونا کس بات کا تھا یہاں تو حالت یہ ہے کہ قومی یکجہتی کی باتیں ہی باتیں ہیں۔ بستی بستی آگ لگائی جاتی ہے۔ پنجاب کا سیاسی بحران 17 جولائی کے ضمنی انتخابات تک ٹل گیا۔ ضمنی انتخابات پر پنجاب حکومت کا انحصار قائم رہتی ہے یا نہیں۔ اس لیے تجزیہ کاروں نے ابھی سے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ انتخابات بڑے (Critical) ہوں گے۔ ن لیگ کے رہنماؤں کو جانے کیسے یقین ہے کہ 16 نشستیں جیت جائیں گے پی ٹی آئی پلس ق لیگ دو سے تین نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکے گی۔ اس قسم کی باتوں پر غصہ آنا قدرتی بات تھی چنانچہ پی ٹی آئی پنجاب کی صدر محترمہ یاسمین راشد نے کھلے بندوں جذبات کا اظہار کر دیا مگر کسی ثبوت یا شواہد کے بغیر آئی ایس آئی کے مقامی سربراہ سے کہا کہ وہ نیوٹرل ہیں تو نیوٹرل ہی رہیں یہ بھی کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ وہ نیوٹرل نہیں ہیں۔ فضول بات اپنی جھولی خالی ہے تو الزام کسی پر کیوں؟ یہ ہنر والے کس ہنر کے ساتھ عیب اپنے چھپائے رہتے ہیں۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی بہت یاد آئے وہ محترمہ یاسمین راشد کے ساتھ کھڑے ہو کر غصہ کا مخصوص انداز میں اظہار کرتے تو بھلے لگتے مگر دو دن قبل ہی انہوں نے اپنی ہی پارٹی پر ملتان کی نشست ہرانے کی سازش کا انکشاف کر کے اپنے آپ کو پارٹی کی نظروں میں مشکوک بنا لیا کس طمطراق سے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ بن جاتا تو پنجاب کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اقبال ماجد نے کہا تھا ’’بغض بھی سینے میں رکھتا ہوں امانت کی طرح / نفرتیں کرنے پر آ جاؤں تو حد کرتا ہوں میں‘‘ پنجاب کی نمبر گیم خطرناک ہے۔ ن لیگی ارکان کو یقین دہانیوں کے باوجود پریشانیوں کا سامنا ہے انہیں حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ قائم رکھنے کے لیے ضمنی انتخابات میں کم از کم 9 سیٹیں جیتنا ہوں گی۔ زمینی حقائق پریشان کن ہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی (حد ہو گئی بلکہ حد سے ودھ ہو گئی) اور لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ عمران خان حکومت کا بویا موجودہ حکومت کاٹ رہی ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ اس نے عوام کی پیٹھ پر درے لگانے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ مہنگائی کی شرح 29 فیصد ہو گئی۔ پیٹرول 249 روپے لٹر تک پہنچ گیا۔ امیروں پر 10 فیصد سپر ٹیکس کے اثرات منفی وہ اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر عوام سے سپر ڈپر ٹیکس وصول کر لیں گے اول آخر عوام ہی متاثر ہوں گے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پچھلی حکومت سستی گیس خرید لیتی تو اتنی بُری معاشی صورتحال نہ ہوتی جن کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں وہ دہائی دینے پر مجبور ہیں اور خطرہ ہے کہ وہ ضمنی انتخابات میں بدلہ نہ چکا دیں سابق حکومت نے غریبوں کو لنگر خانوں کی راہ دکھائی تھی موجودہ حکومت سڑکوں پر لے آئی ہے۔ چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا/ صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا۔ حالات حکومت کے بس میں نہیں مہنگائی کا اندازہ کے پی کے کے ایک شخص کے تبصرے سے لگایا جا سکتا ہے جس نے کہا کہ مہنگائی ہو تو ہو مگر نسوار کیسے مہنگی ہو گئی ڈی پی او نے اس کی شکایت کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے پاس اب الیکٹیبلز نہیں بیساکھیاں بھی ختم ہو گئیں۔ اب کھلی جنگ، کھلا میدان، پنجاب کا فیصلہ ضمنی انتخابات ہی نہیں آئندہ عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہو گا تیری گٹھڑی میں لاگا چور مسافر جاگ ذرا۔

مصنف کے بارے میں