بیساکھیوں کی تلاش

بیساکھیوں کی تلاش

تحریک انصاف کے سربراہ آج کل بیساکھیوں کی تلاش میں ہیں۔ ان کے طرز سیاست سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اقتدار کی کرسی تک رسائی بیساکھیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ بیس سو چودہ کا دھرنا ہو یا بیس سو اٹھارہ کا الیکشن دونوں میں کامیابی انہی کی مرہون منت تھی۔ اب جبکہ حالات نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا ہے، ایک بیساکھی فی الوقت کھسک گئی ہے جبکہ دوسری بیساکھی ابھی تک کچھ نہ کچھ سہارا دیئے ہوئے ہے اور عمران خان اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ اس وجہ سے سیاسی حکومتی جماعتوں کی طرف سے اشاروں کنایوں میں عمران خان کی بننے والی دوسری بیساکھی کو متنبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں غیر جانبدار رہے کیونکہ آئین و قانون ہر گز کسی کو یہ اجازت نہیں دیتاکہ وہ کسی سیاسی جماعت کی طرف اپنا جھکاؤ ظاہر کرے یا جانبداری کا تاثر دے کیونکہ ایسے کسی بھی عمل سے نہ صرف ریاستی ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے بلکہ عوام کا اداروں پر سے اعتماد اٹھا جاتا ہے جس سے معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ رہی بات عمران خان صاحب کی تو اس میں تو کوئی دو رائے نہیں آج کل وہ جس طرح کے اعلیٰ عدلیہ سے مطالبات کر رہے ہیں، اس سے تو عمومی یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کو اقتدار کی ہوس کی بیماری لاحق ہو چکی ہے۔ وہ ہر حال میں یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حکومت جلد از جلد نئے انتخابات کرانے کا اعلان کرے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امریکا مخالف جو نعرہ لگایا ہے لوگ جوق در جوق امریکی مخالف چورن کھانے کے لیے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ا دھر انتخابات ہوں گے ادھر ایک بار پھر وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو جائیں گے بلاشبہ یہ ان کی محض خام خیالی ہے ۔ تاہم وہ اپنی اسی خواہش کے تابع آئے روز نت نئے پینترے بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ کبھی ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کے الاؤ بھڑکاتے تو کبھی ان کی جی حضوری کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ اپنے اس کھیل میں کسی حد تک اس وقت کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں جب اداروں کی طرف سے دیئے جانے والے چند فیصلوں میں ان کی جانبداری کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کھلم کھلا یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ آزادی مارچ 
میں سو فیصد گولی چلنی تھی ہمارے لوگوں کے پاس بھی پسٹل تھے۔ ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ این نے کئی بار لانگ مارچ کیے لیکن کبھی کسی نے دیکھا نہ سنا کہ لانگ مارچ کرنے والوں کے پاس ریاستی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے اسلحہ تھا بالخصوص پیپلزپارٹی کے کارکنان اور لیڈر شپ نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کھلے عام کوڑے کھائے، ناچتے ہوئے تختہ دار پر لٹک گئے لیکن کبھی کسی رہنما نے شدت پسندی کی فضا پیدا نہیں کی یہاں تک بی بی کو شہید کر دیا گیا تب بھی قیادت نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور کارکنان کو صبر و تحمل کی تلقین کی۔ تحریک انصاف کی تو قومی سلامتی کے اداروں نے گود سے اترنے ہی نہیں دیا۔ پاؤں بھی میلے نہیں ہونے دیئے اور اپنے ہمنواؤں سے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ بھی لے کر 
دیا۔ خود ریاست مدینہ کا شور مچاکر فارن فنڈنگ کیس کو کئی سال سے عدالتوں کی الماریوں کی نذر کیا ہوا ہے۔ کیا کہا جائے انصاف پسندوں کو یہ نظر ہی نہیں آتا کہ وہ ملک میں انارکی، انتشار پھیلانے کی ہر ممکن کوشش میں ہے۔ یہاں تک نوبت آن پہنچی ہے کہ عمران خان کے ایک ساتھی نے ان کے ایما پر یہاں تک اعلان کر دیا ہے کہ وہ لانگ مارچ میں صوبہ پختونخوا کی فورس استعمال کریں گے۔ ایک صوبہ کا وزیراعلیٰ کھلم کھلی یہ دھمکی لگا رہا ہے کہ وہ عمران خان کی قیادت میں وفاق کے خلاف جنگ لڑنے سے گریز نہیں کریں گے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اب سوموٹو لینے والے کہاں چلے گئے ہیں بندوق کے زور پر اپنی مرضی کا انصاف لینے کے لیے لانگ مارچ کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ نوٹس لینے والے اداروں کی طرف سے خاموشی نے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے اور واضح طور پر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان ایک بار پھر اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا دے کر 2014ء والا نسخہ آزمانا چاہتے ہیں یہ بات الگ ہے کہ اب ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس وقت دونوں بیساکھیوں کا ان کو سہارا تھا جبکہ اس وقت صرف ایک بیساکھی ان کو سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہے شاید اقتدار کی خواہش میں وہ بھول رہے ہیں ان کو یہ ادراک نہیں ہے کہ ایک بیساکھی کے سہارے اسلام آباد پر یلغار کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ دوسری بیساکھی اب خاموش تماشائی بن کر تماشا نہیں دیکھے گی بلکہ آئین کی روح پر عمل کرتے ہوئے ملک و امن و امان کی صورت حال یقینی بنانے کے لیے حکومت کے حکم کے تابع اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔ اس لیے کوئی تو ہو جو تحریک انصاف کے سربراہ کو یہ سمجھا سکے کہ اقتدار اب ان کی پہنچ سے بہت دور ہے صبر کا دامن تھام کر حقیقی سیاسی کارکن بن کر اپنی بکھرتی پارٹی کو منظر رکھنے پر توجہ دے کیونکہ وہ وقت بہت قریب ہے جب تحریک انصاف بھی ق لیگ بننے جا رہی ہے نئے انتخابات کا اعلان ہونے کی دیر ہے جن کا انعقاد ایک سال کے عرصہ بعد ہو سکتا ہے۔ 

مصنف کے بارے میں