پاک ترک تعلقات کا جائزہ

پاک ترک تعلقات کا جائزہ

ترکی سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے دلوں میں تقسیمِ ہند سے قبل بھی خلافتِ عثمانیہ کی وجہ سے عقیدت رہی خلافت کے خاتمے اور مصطفی کمال پاشا کی لبرل پالیسی کے باوجود عقیدت و احترام میں کمی نہ آئی قیامِ پاکستان کے بعد کہنے کی حدتک پاک ترک تعلقات انتہائی قریبی اور گرم جوشی پر مبنی ہیں رواں برس پاک ترک سفارتی تعلقات کی75 ویں ساگرہ بھی منائی جارہی ہے جو کہ نہایت خوش آئند ہے لیکن دونوں ممالک میں دوستی اور قریبی تعاون کے جتنے دعوے کیے جاتے ہیں عملی طور پر صورتحال انتہائی مایوس کُن ہے حالانکہ باہمی تجارت کے وسیع مواقع ہیں زمینی ،فضائی اور سمندری تینوں ذرائع سے تجارت ممکن ہے پاکستان ،ترکی اور ایران تینوں ممالک نے سامان لانے اور لے جانے کے لیے ریل سروس بھی بحال کر دی ہے لیکن تمام تر مواقع کے باوجود ترکی کوپاکستانی برآمدات کم ہو رہی ہیں  دوستی و تعاون کا یہ نتیجہ ہے کہ ترکی کے سامان کاپاکستان گودام بن رہا ہے تجارتی حجم کیوں مکمل طور پرترکی کے حق میں ہے؟ سے خدشات و سوالات جنم لیتے ہیں کہ یا تو پاک ترک تعلقات محض حکومتی سطح تک ہیں یا پھر دوستی کی باتیں مصنوعی ہیں اور چین کی طرح ترکی بھی پاکستان کو صرف اپنے مال کی منڈی سمجھ کر اہمیت دیتا اور منافع حاصل کر نے کاایک ذریعہ تصورکرتا ہے۔
پاکستان کا ہر حکمران اقتدار ملتے ہی چین ،سعودی عرب،عرب امارات ،ایران ،ترکی ، امریکہ اور برطانیہ کا دورہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کچھ عرصہ سے ایران ،امریکہ اور برطانیہ کی اہمیت کم ہوچکی ہے لیکن چین ،سعودی عرب ،عرب امارات کی اہمیت بڑھی ہے کیونکہ اِن ممالک سے پاکستان کو مالی مدد ملتی ہے وزیرِ اعظم شہبازشریف نے 31 جولائی سے ترکی کے سہ روزہ دورے کے دوران ترکی کوفطری شراکت دارقرار دیتے ہوئے کئی معاہدوںاوریادداشتوں پر دستخط کیے ہیں سعودی عرب،برطانیہ اور عرب امارات کے بعد اُن کا یہ چوتھا غیر ملکی دورہ ہے معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کے باوجود ترکی کے دورے کے دوران دیگر ممالک کی طرح تعاون کے امکانات بہت کم ہیں پہلے بھی معاہدوں پر عملدرآمدکے حوالے سے ماضی کوئی درخشاں نہیں اب تو زوال پذیر معیشت کی بناپر تجارتی تعاون اوربھی کم ہو سکتاہے ترکی سے دفاعی تعاون کے علاوہ کچھ مالی تعاون حاصل ہونا یا برآمدی سامان کے لیے سہولتیں ملنے کازیادہ امکان نہیں امریکہ سے تعلقات سردمہری کا شکار ہوئے تو ترکی نے ہمیںایف سولہ کے انجن اوراضافی پرزے دینے سے صاف انکار کر دیاحالانکہ ترکی کے کہنے پر ہی او آئی سی کے متبادل کے طورپر ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایران کی ہمراہی میں نئی تنظیم بنانے کے لیے چارملکی سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا گیا چاہے سعودیہ کے ڈر سے عمران خان نے عین وقت پراجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی لیکن اِس غلطی کے نقصان کا ابھی تک اذالہ نہیں ہوسکا قبرص کا مسئلہ ہو، روسی طیارہ گرانے پر سفارتی تنائو یا فتح اللہ گولن تحریک ،پاکستان نے طیب اردوان کے ہر کہے پر من و عن عمل کیا ہے مگرجواب میں ترکی نے پاکستان کے تجارتی سامان کے لیے اضافی سہولتیں دینے سے اجتناب کی پالیسی تبدیل نہیں کی۔
 زیادہ ماضی میں جانے کے بجائے صر ف گزشتہ دہائی کے شماریات پر ہی نظر ڈال لیں آپ کو تجارتی توازن مکمل طور پر ترکی کے حق میں نظر آئے گا 2009میں پاکستانی برآمدات 407ملین ڈالر رہیںجو 2011میں بڑھ کر 756ملین ڈالر ہوگئیںلیکن اگلے برس13۔2012میں برآمدات کم ہو کرمحض 400ملین ڈالر رہ گئیں پھر بھی خوش آئند بات یہ رہی کہ ترکی سے درآمدات لگ بھگ ایک سو پچاس ملین ڈالر سے زائد نہ ہونے کی بناپرکسی حدتک تجارتی توازن پاکستان کے حق میں رہا پھر چین کی طرح ہماراترکی سے عشق بڑھنے لگا جس کے بعد ہر سال پاکستانی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوتا چلا گیا صرف چھ برس کی مدت 2018 تک برآمدی سامان نصف سے بھی کم ہو گیالیکن ترکی سے درآمدات میں دو گنا ہوگئیں 2020کے شماریات سے یہ حیران کن فرق اور نمایا ں نظرآتا ہے اِس برس پاکستان نے ترکی کو صرف394ملین ڈالر کا سامان برآمد کیا جبکہ ترکی نے 630ملین ڈالر کا سامان پاکستان کو فروخت کیا جبکہ دفاعی اعداد و شمار الگ پریشان کُن ہیں یہ تجارتی عدمِ توازن قریبی تعلقات کی نفی کرتے ہیں شہبازشریف نے سرمایہ کاروں، تاجروں اورصنعت کاروں سے ملاقاتوں اور پاکستان ترکی بزنس کونسل سے خطاب کے دوران یہ دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ تین برس کے دوران دونوں ممالک کا تجارتی حجم پانچ ارب ڈالر تک بڑھائیں گے دوطرفہ تجارت بڑھانے کے لیے دونوںملک ٹاسک فورس بنانے پر بھی اتفاق کر چکے ہیں لیکن اِس دعوے کے مطابق پاکستان کے لیے تجارتی حوالے سے امکانات تاریک ہیں یہ دورہ تبھی کامیاب اور ثمر آور کہلا سکتا ہے اگرانقرہ سامان بیچنے کے ساتھ پاکستان سے خرید بھی کرے دفاع اور سرمایہ کاری کے وعدوں پر لُٹنا مناسب نہیں جب تک فوری طورپر برآمدات کے فروغ کے لیے کچھ سنجیدہ اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک دعویٰ محض دعویٰ ہی رہے گا۔
کوئی ملک دنیا سے کٹ کرترقی نہیں کر سکتا تکنیکی تعاون بڑھانے ا ور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اُٹھاکر کم وقت میں ترقی کی منازل طے کی جاسکتی ہیں لیکن چند برس سے پاکستان دوست ممالک کو نفع دینے والی منڈی بن کر رہ گیا ہے اور دوستی کی وجہ سے چین ہو یا ترکی،کے تجارتی سامان کا گودام بنتا جارہا ہے یہ دوستی پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے ظاہر ہے اِس میں کسی اورکا نہیں ہماری اپنی کوتاہیوں کا عمل دخل ہے زرعی اور صنعتی پالیسی نہ ہونے کی بنا پر پیداوار میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر اِس حد تک دبائو کا شکار ہیں کہ قرضوں کی اقساط اور سود کی رقم اداکرنے سے قاصر ہو چکے ہیں اگر شہریوں کی ضروریات کے مطابق فصلوں کی کاشت ہو اور معیاری وسستاصنعتی سامان تیار کیا جائے تو تجارتی خسارے پر قابو پانا اور زرِ مبادلہ پر دبائو کم کرنا زیادہ مشکل نہیں لیکن ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور حکمرانوں کی زیادہ توجہ ملکی نہیں انفرادی فائدے پر ہوتی ہے علاوہ ازیں بجلی و گیس جیسی توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پیداواری لاگت میں  ہوشرُبا اضافہ ہوگیاہے جب تک صنعتی ترقی اور برآمدات کے حوالے سے جامع پالیسی نہیں اپنائی جاتی تب تک متعین اہداف کا حصول ممکن نہیں اور نہ بے روزگاری میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔
حکومت کو قرض لیکر امورِ مملکت چلانے اور پاکستان کودوست ممالک کے سامان کی منڈی بنانے کے بجائے ملکی پیداوار بڑھانے کے ساتھ خود کفالت پر توجہ دینی چاہیے اور ایسی اشیا  درآمدکرنے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جس سے ملکی ساختہ اشیاکی کھپت میں مشکل پیش آئے اسی طرح تجارتی خسارہ کم کرنا ہے تو بجلی وغیرہ کے نرخ بڑھانے کے بجائے کمی لانا ہوگی تاکہ پیداواری لاگت میں کمی آئے اور عالمی منڈی میں پاکستانی اشیاسستی اور معیاری ہونے کی بناپر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں علاوہ ازیں سامان درآمد کرنے کے ساتھ ٹیکنالوجی حاصل کرنے توجہ دی جائے ملک کو تجارتی حوالے سے پیداواری مرکز بنانے سے ہی تجارتی توازن اپنے حق میں کر سکتے ہیں دوستی اپنی جگہ مگر قومی مفاد کو سب سے مقدم رکھنا ہی حب الوطنی ہے کسی ملک سے دوستی پر قومی مفاد قربان کر نا دانشمندی نہیں ترکی اگر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کرتا ہے تو پاکستان نے بھی مسئلہ قبرص پرہمیشہ ترکی کاساتھ دیا ہے اس حمایت کی پاداش میں ہی یونان بطورممبر یورپی یونین ہرجگہ ہماری مخالفت کرتا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ترکی سے دوستی ہے تو تجارتی فائدہ بھی لیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوستی مضبوط بناتے بناتے مستقبل میں ہمارا ملک غیر ملکی سامان کا گودام بن کر رہ جائے موجودہ پالیسی سے تو ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ حکمرانوں کو ملکی مفاد سے زیادہ دوست ممالک کا مفادعزیز تر ہے۔

مصنف کے بارے میں