دادا گیری کا سفر

دادا گیری کا سفر

پہلے میرا خیال تھا کہ میں غنڈہ گردی کا عنوان دوں پھر سوچا کہ دادا گیری ایک رویے کا نام ہے جس کو بہت پرانا محاورہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کہہ کر بھی اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔ یوں تو دادا گیری، سینہ زوری کی ایک تاریخ بلکہ انسانی تاریخ اسی عمل اور اس کے ارتقا سے عبارت ہے۔ ایک امریکی خاتون صحافی جو کئی سال پہلے کالج آف سٹاٹن آئی لینڈ میں Mass Communication جبکہ میں قانون کا طالبعلم تھا۔ ادارے کی طرف سے انڈوپاک کے دورے پر آئی میری ملاقات ہوئی۔ ڈالیا اور ایک پوہچن Pohchan تھی۔ میں نے ڈالیا جس کے اجداد سپینش تھے، پوہچن جو کوریا کی تھی مگر امریکی تھی، اسی وجہ سے یونائیٹڈ نیشنز آف امریکہ USA کو نیشن آف دی نیشنز کہتے ہیں۔ دنیا کی اقوام پر مبنی قوم۔ میں نے ڈالیا سے کہا کہ امریکی بہت قانون پسند، مہذب، قانون پر عمل داری کرنے والی قوم ہے۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ سب قانون کی وجہ سے ورنہ وہ جتنے حیوان ہیں آپ تصور نہیں کر سکتے۔ اگر نہیں یقین تو امریکہ میں بجلی بریک ڈاؤن پر ہونے والے حشر سے اندازہ لگا لیں۔ لہٰذا قانون نے اس کو جکڑ رکھا ہے۔ دنیا کی کسی بھی قوم کی تاریخ اتنی مسکین نہیں کہ مہذب کہلائے مگر قانون اور بس قانون کی حاکمیت۔ آپ عرب ممالک اور ان کی قبل از اسلام تاریخ دیکھ لیں۔ منگول تاتاری، ترک، یورپی، افریقی کوئی بھی دیکھ لیں اور ان کی تاریخ دیکھ لیں۔ آج سب قانون کی عمل داری کے ارتقا کی بدولت دنیا میں مہذب اقوام کہلاتی ہیں۔ سب سے زیادہ طاقتور کسی بھی خطے کے زمینی رشتے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سندھ، بلوچستان ہزاروں سال کی تاریخ رکھتے ہیں۔ افغانستان، خیبر پختونخوا، شمالی علاقہ جات کی بھی زمینی رشتوں اور روایات کی تاریخ ہے۔ کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے زمینی رشتے اور روابط اندلس (سپین) ترکی، چین، روس، ایران، عرب ممالک کے زمینی رشتے اور حقائق و تاریخ بیان نہیں کر سکتا۔ سب سے بڑا چھا جانے والا رشتہ رسم و رواج اور روایات کا ہوتا ہے اگر کسی ملک کی ثقافت اور معاشرت فتح کر لی جائے یا برباد ہو جائے تو وہاں فوج کشی کی ضرورت نہیں رہتی۔ بدنصیبی سے چند سال میں ایک رنگ باز سیاست دان جو حقیقت میں سیاسی گورو رجنیش یا زیادہ سے زیادہ ویلنٹائن مزاج آدمی ہے، نے ہماری ثقافت برباد کر کے رکھ دی۔ بات شروع ہوئی تھی دادا گیری کے سفر سے تو دنیا نے قانون کی حاکمیت سے اس انسانی جبلت اور خصلت پر قابو پا لیا مگر ہمارا سفر ارتقا کے بجائے انحطاط کی طرف جاری ہے۔ آپ موجودہ ملکی سیاسی سماجی معاشی صورت حال پر غور کریں اس کے تانے بانے کسی سیاسی تاریخ، نظریاتی اساس، زمینی ثقافت کے بجائے آپ کو دادا گیری، غنڈہ گردی اور وحشت و دہشت پرستی و پسندی سے ملتے ہوئے محسوس ہوں گے۔ نیازی صاحب اول تو ڈھٹائی کہ عدالت بلا رہی ہے اور یہ نہیں جا رہے۔ دراصل یہ سب اس پانچ کے ٹولے کا کیا دھرا ہے جس کی نشاندہی مریم نواز نے کی۔ وہ مصلحت اور جنرل باجوہ کے اقرار کے بعد کہ عمران پراجیکٹ بلنڈر تھا۔ جنرل باجوہ کو پانچ کے ٹولے سے الگ کر گئیں۔ اگر یہ ٹولہ اور سہولت کار نہ ہوتے تو بربادی کا یہ شجر جڑ پکڑتا نہ شاخیں پھیلاتا۔ عمران کی عدالت پیشی دیکھ کر مجھے دادا گیری، غنڈہ گردی کے ان گنت واقعات یاد آ گئے۔ ہم چھوٹے تھے، بچپن تھا تو محلے میں سنتے تھے کہ گوجرانوالہ کا ماجھو پہلوان گرفتار ہوا ہے۔ اس کی
پیشی پر لوگ اس کو ملنے جاتے جیل سے کچہری اور عدالت تک لوگ دونوں اطراف کھڑے ہوتے۔ ماجھو پہلوان ہاتھ ہلاتا اور ملاتا ہوا جاتا۔ اکثر لوگ شام کو واپس آ کر ماجھو پہلوان کی تاریخ پر پیشی کے حالات بتاتے۔ یہی حالت لاہور میں ریاض گجر، ججی شاہیا دا، بلو گھنٹہ گھریا، اصغر بٹ (فاروق گنج بالا) کی تھی۔ بے شک یہ لوگ دشمن دار تھے، یہ عوام میں جانے جاتے تھے۔ لوگ ان کے بھی حمایتی اور مخالف تھے۔ پھر کیا ہوا دور بدلا اور دشمن دار بدمعاش ضیا الحق کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہو گئے یعنی وہ دور ختم ہوا تو لوگ اپنے آپ آنا بند ہو گئے۔ ایسے لوگوں نے عدالتوں میں پیشیوں پر برادری، دوستوں اور حمایتیوں کو بلانا
اور دعوت دینا شروع کر دی مگر عدالتوں پر اثر ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ مخالفین پر دھاک بٹھانے کے لیے ان کی بات پر بھروسہ کیا جا سکتا تھا جبکہ نیازی صاحب یوٹرن نظریہ کے مالک ہیں وہ لوگ علاقے کے محافط تھے جبکہ اِدھر معاملہ مختلف ہے۔ یقین کریں عمران نیازی کی پیشی پر مجھے وہ لوگ بھی معصوم لگے اور اس پر بلاول بھٹو کی بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ ایک ادارے سے سلیکٹڈ کی سہولت کاری اور حمایت نہیں رہی البتہ دوسرے ادارے میں ابھی حمایت جاری ہے۔ جب بات عمران دازی اور عمران داری کی ہو رہی ہے اور قانون کی عدم حکمرانی کی ہو رہی ہے۔ ایک واقعہ یاد دلا دوں۔ جسٹس عبدالمجید ٹوانہ تب گوجرانوالہ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے ایک قتل کا ملزم پیش ہوا۔ کٹہرے میں اس کو چین نہیں تھا، تگڑا جوان تھا اور سلطان راہی بنا ہوا تھا۔ دائیں بائیں آگے پیچھے کٹہرے میں جھوم رہا تھا۔ اس دن مقدمہ کی سماعت کا پہلا دن تھا۔ ٹوانہ صاحب نے بخشی خانہ کی گارد کے انچارج کو بلایا جس نے جج صاحب کو سلیوٹ کیا۔ خواجہ جاوید میرے سینئر اس ملزم کے وکیل تھے۔ ٹوانہ صاحب نے اس کو کہا تمہارے ساتھ نفری بھی ہو گی؟ اس نے کہا جی حضور۔ ٹوانہ صاحب نے ملزم کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر یہ ایک انچ آگے ایک انچ پیچھے دائیں بائیں ہو تو میرا حکم ہے اس کو گولی مار دو۔ یہ فقرہ مکمل ہونا تھا کہ ملزم کھمبے کی طرح سیدھا مگر بے جان کاٹو تو خون نہ نکلے۔ چند منٹوں بعد خواجہ صاحب نے مداخلت اور درخواست کر کے معافی دلائی۔ قانون کی حکمرانی نے پہلوان کو بندے سے کھمبا بنا دیا۔ آپ نیازی صاحب کے انداز دیکھیں تو یہ سیاسی ارتقا یا تحریکی پیش قدمی نہیں دادا گیری اور غنڈہ گردی کا سفر نظر آئے گا۔ باتیں دنیا کے لیڈروں کی وہ بھی اس نے نام یاد کر رکھے ہیں۔ کہاں مولانا حسرت موہانی، گاندھی، قائد اعظم، قائد عوام، محترمہ بے نظیر بھٹو، نوازشریف، مریم نواز اور بلاول بھٹو اور کہاں ماجھو، بلو گھنٹہ گھریا، ججی شاہیے دا، ریاض گجر اور عمران احمد خان نیازی دونوں کی راہیں جدا اور الگ ہیں۔ ایک ضیا القمر بہن ہیں ورجینیا امریکہ میں رہ کر بھی پاکستان کی معاشرت اور حالات پر پریشان رہتی ہیں۔ ان کو بھی ثقافت کی بربادی کا بہت دکھ ہے۔ اللہ نہ کرے ملک دیوالیہ ہو خدانخواستہ ایسا ہو بھی گیا تو قابو پا لیا جائے گا، جنگ چھڑ جائے زلزلے آ جائیں، سیلاب آ جائیں، خدانخواستہ کوئی اور تباہی آ جائے ملک اور قوم سرخرو ہو جائیں گے مگر یہ جو عمران احمد نیازی نے ثقافت کی اساس کا کھلواڑ کیا ہے، جو جھوٹ کو رواج دیا ہے جو بے حیائی، بد زبانی کی طرح ڈالی ہے۔ اس کی واپسی ممکن نہیں۔ کہاں سائفر کہانی اور اب علیمہ خان کی امریکیوں سے ملاقاتیں اور امریکی وفد کا نیازی صاحب سے ملنا۔ آج کی سیاست اور اس کی سیاست سیاسی ارتقا نہیں دادا گیری کا سفر ہے جس کو ٹوانہ صاحب جیسے جج کی عدالت کا حکم روک سکتا ہے۔