مائنس ون، جام کمال اور عمران خان

مائنس ون، جام کمال اور عمران خان

سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کی بات مانیں۔ حکومت کچھ کہتی رہی اور تھیلے سے کچھ اور نکلا۔ کیا وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ اور قومی سلامتی کے اجلاس محض دکھاوا تھا۔ ان اجلاسوں کے بعد ہونے والی بریفنگز کچھ اور کہہ رہی تھیں اور معاہدے کچھ اور ہوتے رہے۔ تبدیلی کا جو سفر بلوچستان سے شروع ہوا تھا کیا وہ وفاق اور دوسرے صوبوں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ اسلام آباد دھرنے اور جام کمال کی حکومت کی رخصتی دو الگ الگ معاملات ہیں لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ جام کمال بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ بڑے صاحب سے معاملات ٹھیک ہوں تو پھر چھوٹوں کی کیا اوقات کہ وہ منہ کھولیں۔ جام کمال پڑھے لکھے تھے لیکن معاملہ فہم نہ تھے۔ ان تمام حلقوں کو ساتھ لے کر نہ چل سکے جو بلوچستان کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کے خلاف سب سے پہلے اختر مینگل متحرک ہوئے تھے مگر بعد ازاں باپ حرکت میں آئی اور مائنس ون فارمولے کے تحت جام صاحب کو جانا پڑا۔ اس سارے کھیل میں کس نے کتنے لیے یہ ایک الگ موضوع ہے مگر جام کمال کے جانے اور ان کے خلاف عدم اعتماد لانے میں بہت سے فیکٹرز نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ بہتر نہیں تھا کہ جام کمال ہی انہیں حصہ دار بنا لیتے۔ ویسے بھی بلوچستان کے معاملات قوم سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔ قوم پرست اختر مینگل کی خاموشی کے پیچھے عوامل پر بلوچستان میں کھل کر گفتگو ہو رہی ہے۔  وفاق کے معاملات بھی اسی طرح کی رسہ کشی کا شکار ہیں۔ وزیراعظم کو کچھ بتایا جاتا ہے اور معاملات کچھ اور نکلتے ہیں۔
کابینہ اور قومی سلامتی کے اجلاس میں جو فیصلے ہوئے وہ فواد چودھری اور شیخ رشید کی زبانی قوم تک پہنچے اور بعد ازاں معاملات اس کے الٹ نکلے۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ان ہی امور پر اکتفا کیا گیا تھا جس کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر فواد چودھری اور شیخ رشید کی پریس کانفرنس جھوٹ کا پلندہ تھی اور اگر انہوں نے وہی کہا جو اجلاس میں ہوا تو پھر کیا کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی سے اوپر بھی کوئی فورم ہے؟
حیرت ہے کہ کالعدم جو اب کالعدم نہیں رہے گی وہ حکومت اور ریاستی اداروں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے مگر مفتی منیب الرحمن کی گارنٹی کو مان رہی ہے۔ مفتی منیب الرحمن کے پاس وہ کون سی آئینی اور قانونی طاقت موجود ہے کہ ٹی ایل پی ان کی گارنٹی کو تسلیم کر رہی ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کے رکن مولانا بشیر فاروقی کے بقول سب کچھ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بدولت ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آرمی چیف طاقت کے استعمال کے خلاف تھے اور ان کا سارا زور مذاکرات پر تھا۔ آرمی چیف ایک ہزار فیصد چاہتے ہیں کہ ملک میں امن ہو جائے، ان کی برکتوں سے سارا کام ہو گیا اور جو معاہدہ ہوا ہے اس میں ہزار فیصد کردار فوج کا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مذاکرات کو ترجیح دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ مفتی منیب الرحمن کے بقول ہم نے مصالحت کار کے فرائض سر انجام دیے اور بالآخر معاہدہ ہو گیا۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ان معاملات کو دیکھ کر فوج پر تنقید کرنے والوں کو مزید مواد فراہم نہیں کر دیا گیا اور پریس کانفرنس میں جس طرح فوج اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار پر بات ہوئی کیا ان مذہبی رہنماؤں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں کی؟ کیا انہوں نے دنیا کو یہ پیغام نہیں دیا کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں بات کرنی ہے تو کسی اور جگہ جانا ہو گا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ فوج ملک میں خون خرابہ نہیں چاہتی اور کوئی بھی فوج اپنے ہی ہم وطنوں کو گولی چلانے سے قاصر ہوتی ہے لیکن اس طرح کے معاملات میں حکومت سامنے آتی ہے۔ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی حکومت نے تشکیل دی تھی اور مذاکرات کا ڈول ڈالا لیکن اس پریس کانفرنس سے کچھ اور ہی واضح ہوتا رہا۔ خدا را فوج کے کردار کو متنازع نہ بنائیں۔ یہ درست ہے کہ خارجی اور داخلی خطرات سے نبردآزما ہونا ہماری فوج کا کام ہے اور وہ احسن طریقے سے اپنے کردار کو سرانجام دے رہی ہے، لیکن مذہبی جماعتوں اور عمائدین جس طریقے سے فوج کے کردار کو سیاسی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کا خود فوج کو نوٹس لینا چاہئے۔ یہ معمہ بھی حل طلب ہے کہ پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ کے بجائے وزیر خارجہ موجود تھے اور وہ مذاکرات کر رہے تھے۔ بہتر ہے کہ کابینہ میں ردوبدل کر کے ان کی پوزیشنیں تبدیل کر دی جائیں۔ 
اس معاہدے کے بعد حکومت بحران سے نکلی ہے۔ سکھ کا سانس لیا لیکن وہ اس مریض کی مانند ہے جسے آکسیجن پر رکھا گیا ہو۔ طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ ٹی ایل پی سے کیا معاہدہ ہوا اس کی جزئیات کا کسی کو علم نہیں۔ قوم کو بعد میں بتانے کی بات کی گئی ہے۔ کیا اس میں کچھ ایسی شقیں موجود ہیں جو حکومت اور ٹی ایل پی دونوں چھپا رہے ہیں۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ حکومت نے جو معاہدہ کیا ہے اسے سامنے آنا چاہیے تاکہ قوم یہ جان سکے کہ کن امور پر اتفاق ہوا تھا تاکہ کل کو کسی فریق کے پاس یہ کہنے کی گنجائش موجود نہ رہے کہ ہم پر جو ذمہ داری تھی وہ پوری کی۔ دوسری صورت میں کہہ ہوگا کہ جب بھی ضرورت محسوس کی جائے گی دوسرے پر الزام لگا دیا جائے گا کہ معاہدے پر عمل نہیں ہوا اور ایک بار پھر کاروبار حیات معطل کر دیا جائے۔
جب طوفان آتا ہے تو سب سے پہلے چوہے بھاگتے ہیں، حکومت اس وقت شدید مشکل میں تھی مگر بہت سے لوگوں نے اس مسئلہ پر اپنی زبانوں کو بند رکھا کچھ ادھر ادھر ہو گئے۔ وزیراعظم کو بھی سب نظر آیا ہو گا کہ کون کون ہے جو ساتھ کھڑا ہے اور کون کون بہانہ کر کے کھسک لیا۔ تقسیم صاف نظر آرہی ہے۔ حکومت اور قوم اس مسئلہ پر تقسیم تھی جناب وزیراعظم اس تقسیم کو ختم کرائیں ورنہ آپ کے سر پر تلوار لٹکی رہے گی۔ ویسے بھی ہنی مون پریڈ گزر چکا ہے اور مکافات عمل شروع ہونے جا رہا ہے۔ عوام کو بھیڑیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، ان کی زندگیوں کو آسان بنائیں تاکہ وہ مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ آپ کی حکومت میں جو اقتدار کے مزے لے رہے ہیں وہ آپ سے پہلے بھی اسی طرح اقتدار کے جھولے لیتے رہے ہیں اور جب مسند پر بیٹھے ہوئے حکمران کی گردن کے گرد شکنجہ کسنے کی تیاریاں کی جاتی ہے تو سب سے پہلے وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں۔ جس طرح جام کمال کے قریبی لوگوں نے ان کا تختہ الٹا ہے اسی طرح کہیں آپ کے خلاف کچھ نہ ہو جائے۔
جام کمال خان کی حکومت ایسے ہی نہیں گئی کیوں گئی اس کا علم وزیراعظم کو بھی ہے باقی سب کھیل ہے۔